سنسناتی ہوئی ہوا کی طرح
سنسناتی ہوئی ہوا کی طرح یوں تری یاد ذہن میں آئی دن ڈھلے دور جنگلوں میں کہیں جیسے روتی ہو شام تنہائی
سنسناتی ہوئی ہوا کی طرح یوں تری یاد ذہن میں آئی دن ڈھلے دور جنگلوں میں کہیں جیسے روتی ہو شام تنہائی
سرخ ہونٹوں کی تازگی کے لئے خون کس نے دیا جوانی کا مجھ کو پہچان اے نگار حیات میں ہوں عنوان تری کہانی کا
میں نے دیکھا جب آدمی کا لہو زر پرستی کے آبگینے میں میرا احساس دل دھڑکنے لگا شاعری کے گداز سینے میں
کتنے پاکیزہ ہیں نوخیز جوانی کے کلس نظر آتا ہے ترا جسم شوالے کی طرح اپنے گیتوں کے مدھوبن میں بلاتا ہے تجھے میرا بچپن کسی گوکل کے گوالے کی طرح
نہ اہل مے کدہ نے مسکرا کر بات کی ہم سے نہ تیری ہی جبیں سے بے رخی کے بل گئے ساقی اگرچہ بزم میں صہبا بھی تھی مینا بھی تھی لیکن خود اپنی تشنگی کی آگ میں ہم جل گئے ساقی
جھلملاتے ہوئے سپنوں کا سویمبر بن کر بجلیاں سی مرے احساس میں لہرائی ہیں نظر آتا نہیں کچھ بھی ترے جلووں کے سوا تیری آنکھیں مری آنکھوں میں اتر آئی ہیں
اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے صندل کا تلک آج آئی ہے تری یاد کی جوگن ایسے آرتی میری اتارے گی مرے ہی گھر میں اور پھر لوٹ کے جائے گی نہ شاید جیسے
تیری خوش رنگ چوڑیاں اب تک ذہن میں بج رہی ہیں کچھ ایسے جیسے پاگل کے پاؤں میں زنجیر یا بھکاری کی جیب میں پیسے