رات بوجھل بھی ہے بھیانک بھی
رات بوجھل بھی ہے بھیانک بھی دل کے مدھم دیے میں تیل نہیں جان دینا بہت کٹھن ہی سہی زندہ رہنا بھی کوئی کھیل نہیں
رات بوجھل بھی ہے بھیانک بھی دل کے مدھم دیے میں تیل نہیں جان دینا بہت کٹھن ہی سہی زندہ رہنا بھی کوئی کھیل نہیں
دیدۂ دل کو یوں نظر آیا ایک دھندلی سی یاد کا چہرہ جیسے دلہن کی مانگ میں مٹی جیسے بیوہ کے ہاتھ میں صحرا
ہاتھ جو بہر دعا اٹھے ہیں جھک جائیں گے ہر نظر تشنہ بہ لب ہو کے دہائی دے گی آپ پردے میں چھپا لیں گی نہ چہرہ جب تک عید کے چاند کی صورت نہ دکھائی دے گی
پھر بجے میرے خیالوں میں سنہرے کنگن بھولے بسرے ہوئے لمحات مجھے یاد آئے عید کے روز کسی نے بھی دعا جب مانگی دو حسیں مہندی لگے ہات مجھے یاد آئے
کتنے سپنوں کے مکٹ ٹوٹ گئے اک پل میں کتنی یادوں کے تلک وقت کے ماتھے سے دھلے میں نے دھوئے ہوئے ہیں دھول بھرے پاؤں مگر اپنی آنکھوں کے محبت بھرے گنگا جل سے
جھک گئیں مل کے اجنبی آنکھیں دل سے دل ہم کلام ہو نہ سکا ہائے مجبوریاں محبت کی ہاتھ اٹھے سلام ہو نہ سکا
اوس میں بھیگی ہوئی تنہائیوں کے جسم سے آ رہی ہے تیرے پیراہن کی خوشبو اس طرح نرم خوابوں کے شبستانوں میں لہراتی ہوئی گنگنائے رات کی الھڑ جوانی جس طرح
آج ہے اہل محبت کا مقدس تیوہار رنگ کیوں لائے نہ معصوم دعاؤں کا اثر عید کا دن ہے چلو آج گلے مل جائیں تم ہو مسجد کی اذاں، میں ہوں شوالے کا گجر
دور پیپل کی بوڑھی شاخوں میں اک پرندہ سا پھڑپھڑایا ہے دل بے تاب دیکھنا تو ذرا کیا کسی نے مجھے بلایا ہے
بہت مختصر سا تعارف ہے میرا نہ جوش جنوں ہوں نہ راز نہاں ہوں کتابوں میں مجھ کو کہاں ڈھونڈتے ہو میں چہرے پر لکھی ہوئی داستاں ہوں