چالاک
تدبیر کا کھوٹا ہے مقدر سے لڑا ہے دنیا اسے کہتی ہے کہ چالاک بڑا ہے خود تیس کا ہے اور دلہن ساٹھ برس کی گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہے
تدبیر کا کھوٹا ہے مقدر سے لڑا ہے دنیا اسے کہتی ہے کہ چالاک بڑا ہے خود تیس کا ہے اور دلہن ساٹھ برس کی گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہے
ایک لیڈر سے کہا یہ میں نے کل اے پاپولرؔ تو الیکشن میں اگر ہارا تو کیا رہ جائے گا اپنے غنڈوں کی طرف دیکھا اور اس نے یوں کہا جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
غصے میں آ کے میں نے کہا اپنی ساس سے کچھ دیر میری بیوی کا پیچھا بھی چھوڑ دے بیٹی کے ساتھ ماں مجھے تسلیم ہے مگر لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
وقت نکاح ہم بھی تھے دولہا بنے ہوئے بلوایا عورتوں نے سلامی کے واسطے ہم رخصتی کے وقت یہی کہہ کے چل پڑے لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
وقت کیا بدلا یہ چمچے بھی دغا دینے لگے جو دعا دیتے تھے کل تک بد دعا دینے لگے چھن گئی کرسی تو لیڈر پر اٹھا لیں کرسیاں جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے