ضد
میں کیوں اس کو فون کروں! اس کے بھی تو علم میں ہوگا کل شب موسم کی پہلی بارش تھی!
پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف
One of the most popular woman poets who gave expression to feelings and experiences specific to women.
میں کیوں اس کو فون کروں! اس کے بھی تو علم میں ہوگا کل شب موسم کی پہلی بارش تھی!
گڑیا سی یہ لڑکی جس کی اجلی ہنسی سے میرا آنگن دمک رہا ہے کل جب سات سمندر پار چلی جائے گی اور ساحلی شہر کے سرخ چھتوں والے گھر کے اندر پورے چاند کی روشنی بن کر بکھرے گی ہم سب اس کو یاد کریں گے اور اپنے اشکوں کے سچے موتیوں سے ساری عمر اک ایسا سود اتارتے جائیں گے جس کا اصل بھی ہم پر قرض ...
''پتھر کی زباں'' کی شاعرہ نے اک محفل شعر و شاعری میں جب نظم سناتے مجھ کو دیکھا کچھ سوچ کے دل میں مسکرائی جب میز پر ہم ملے تو اس نے بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے تھامے جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے پھر مجھ سے کہا کہ آج، پروینؔ! جب شعر سناتے تم کو دیکھا میں خود کو بہت ہی یاد آئی وہ وقت کہ جب تمہاری ...
وہی نرم لہجہ جو اتنا ملائم ہے جیسے دھنک گیت بن کے سماعت کو چھونے لگی ہو شفق نرم کومل سروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو کس قدر رنگ و آہنگ کا کس قدر خوب صورت سفر وہی نرم لہجہ کبھی اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرے گا تو ایسا لگے جیسے ریشم کے جھولے پہ کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے ...
رت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا آج سے تم آزاد ہو پروازوں کی ساری سمتیں تمہارے نام ہوئیں جاؤ جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اڑو بادل کے ہم راہ ستارے چھو آؤ خوشبو کے بازو تھامو اور رقص کرو رقص کرو کہ اس موسم کے سورج کی کرنوں کا تاج تمہارے سر ہے لہراؤ کہ ان راتوں کا چاند تمہاری پیشانی پر ...
لڑکی سر کو جھکائے بیٹھی کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے لڑکا حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو اپنی آنکھ سے چوم رہا ہے دونوں میری نظر بچا کر اک دوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں میں دونوں سے دور دریچے کے نزدیک اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے کھڑکی سے باہر ...
ابھی میں نے دہلیز پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ کسی نے مرے سر پہ پھولوں بھرا تھال الٹا دیا میرے بالوں پہ آنکھوں پہ پلکوں پہ، ہونٹوں پہ، ماتھے پہ، رخسار پر پھول ہی پھول تھے دو بہت مسکراتے ہوئے ہونٹ میرے بدن پر محبت کی گلنار مہروں کو یوں ثبت کرتے چلے جا رہے تھے کہ جیسے ابد تک مری ایک اک پور ...
کھلے پانیوں میں گھری لڑکیاں نرم لہروں کے چھینٹے اڑاتی ہوئی بات بے بات ہنستی ہوئی اپنے خوابوں کے شہزادوں کا تذکرہ کر رہی تھیں جو خاموش تھیں ان کی آنکھوں میں بھی مسکراہٹ کی تحریر تھی ان کے ہونٹوں کو بھی ان کہے خواب کا ذائقہ چومتا تھا! آنے والے نئے موسموں کے سبھی پیرہن نیلمیں ہو ...
اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا میں یہاں ہوں مگر اس کوچۂ رنگ و بو میں روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا اور جب اس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا!؟ آپ کو علم ہے وہ آج نہیں آئی ہیں؟ میری ہر دوست سے اس نے یہی پوچھا ہوگا کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہوئی ...