چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ ...