Parveen Shakir

پروین شاکر

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

One of the most popular woman poets who gave expression to feelings and experiences specific to women.

پروین شاکر کی غزل

    شب وہی لیکن ستارہ اور ہے

    شب وہی لیکن ستارہ اور ہے اب سفر کا استعارہ اور ہے ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے اس سمندر کا کنارہ اور ہے موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا تیر سینے میں اتارا اور ہے متن میں تو جرم ثابت ہے مگر حاشیہ سارے کا سارا اور ہے ساتھ تو میرا ...

    مزید پڑھیے

    تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا

    تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی کھلے دریچے پہ اک پھول دان چھوڑ گیا جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

    رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی ...

    مزید پڑھیے

    بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے

    بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں یہ اجالا تو کسی دیدۂ ...

    مزید پڑھیے

    قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

    قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی مجھ میں بھی کوئی شخص اسی ...

    مزید پڑھیے

    بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے

    بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو ...

    مزید پڑھیے

    اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے

    اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے میں اس کے خیال سے گریزاں وہ میری صدا جھٹک رہا ہے تحریر اسی کی ہے مگر دل خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے صدیوں سے سفر میں ہے سمندر ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے اک چاند صلیب شاخ گل ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا

    وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا وزیر و ...

    مزید پڑھیے

    کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے

    کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں مرا تن مور بن کر ناچتا ہے مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے وہ میرے سب حوالے جانتا ہے میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ مجھے میری رضا سے مانگتا ہے کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل بہانے سے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے

    ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے میں جانتی تھی پال رہی ہوں سنپولیے بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے پلکوں پہ کچی نیندوں کا رس پھیلتا ہو جب ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولیے تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5