شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے اب سفر کا استعارہ اور ہے ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے اس سمندر کا کنارہ اور ہے موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا تیر سینے میں اتارا اور ہے متن میں تو جرم ثابت ہے مگر حاشیہ سارے کا سارا اور ہے ساتھ تو میرا ...