اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک
اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی زخم اپنے رفو کروں کہاں تک ساحل پہ سمندروں سے بچ کر میں نام ترا لکھوں کہاں تک تنہائی کا ایک ایک ...