پیشانی پہ سیال نگینہ کیوں ہے
پیشانی پہ سیال نگینہ کیوں ہے گرداب میں حسن کا سفینہ کیوں ہے نادم ہوں مجھے اپنی ندامت تسلیم یہ آپ کے ماتھے پہ پسینہ کیوں ہے
پیشانی پہ سیال نگینہ کیوں ہے گرداب میں حسن کا سفینہ کیوں ہے نادم ہوں مجھے اپنی ندامت تسلیم یہ آپ کے ماتھے پہ پسینہ کیوں ہے
للہ مری سوزش پیہم کو نہ چھیڑ جا راہ لے اپنی تپش غم کو نہ چھیڑ میں نے تری جنت کو کبھی چھیڑا ہے تو بھی مرے خاموش جہنم کو نہ چھیڑ
مے خواروں سے جب دور نظر آئے گی جب آپ کو پر نور نظر آئے گی جو آج ہے انگور کی بیٹی زاہد جنت میں وہی حور نظر آئے گی
بڑھتا ہوا حوصلہ نہ ٹوٹے دل کا تو دائرہ محدود نہ کر منزل کا مستقبل زریں پہ بہت ناز نہ کر ہے حال ہی وہ بھی کسی مستقبل کا
رخصت ابھی ظلمتوں کا ڈیرا کر دوں ناپید جہاں سے اندھیرا کر دوں سورج کے نکلنے میں تو ہے دیر ابھی پیمانہ اٹھا دو تو سویرا کر دوں
کس طرح سے آئی ہے جماہی توبہ توبہ توبہ توبہ ارے تباہی توبہ دو گھونٹ بھی اس وقت ہے ملنا دشوار یہ قحط اگر ہے تو الٰہی توبہ
بے بادہ بھی غم سے دور ہو جاتا ہوں خود حاصل صد سرور ہو جاتا ہوں مطلب تو ہے چور چور ہو جانے سے تھک کر بھی تو چور چور ہو جاتا ہوں
ساحل پہ اگر مرا سفینہ آ جائے دنیا تجھے جینے کا قرینہ آ جائے بل نزع میں آئے جو مری آبرو پر ماتھے پہ اجل کے پسینہ آ جائے
ہر سانس میں اک حشر بپا ہے واعظ دنیا ہی میں عقبیٰ کا مزا ہے واعظ آئے ہو تم اک روز جزا کو لے کر ہر روز یہاں روز جزا ہے واعظ
معلوم کہ انسان کسے کہتے ہیں سمجھا کہ مسلمان کسے کہتے ہیں بہکا کے مجھے لائے ہو مے خانہ سے اب یہ کہو شیطان کسے کہتے ہیں