مرا من ہے شہر گوکل کی طرح سے صاف ستھرا
مرا من ہے شہر گوکل کی طرح سے صاف ستھرا مری سانس ایسی جیسے کوئی بانسری بجائے مری ایک آنکھ گنگا مری ایک آنکھ جمنا مرا دل خود ایک سنگم جسے پوجنا ہو آئے
مرا من ہے شہر گوکل کی طرح سے صاف ستھرا مری سانس ایسی جیسے کوئی بانسری بجائے مری ایک آنکھ گنگا مری ایک آنکھ جمنا مرا دل خود ایک سنگم جسے پوجنا ہو آئے
ہند کے مے خانے سے اک ساتھ اٹھے دو بادہ خوار ایک نے بوتل سنبھالی اک نے بوتل پھوڑ دی فاتحہ دونوں پہ دونوں نے کیا ہے انتقال ایک جنت میں مکیں ہے اک نے جنت چھوڑ دی ہے
کرم جب عام ہے ساقی تو پھر تخصیص یہ کیسی وہ چاہے کم دے لیکن سب کو حصہ دے برابر سے کہا ساقی نے میں سب کو بقدر ظرف دیتا ہوں برابر دے بھی دوں تو پی نہیں سکتے برابر سے
اے دانہ ہائے گندم دیکھو نہ مسکرا کے میں پھر پہنچ رہا ہوں دنیا کی خاک اڑا کے کیوں اوج آسماں سے پھینکا گیا زمیں پر کیا مطمئن نہیں ہے محفل سے بھی اٹھا کے
کھلتی ہیں وہ مست آنکھیں ہنگام سحر ایسے تالاب میں راتوں کو کھلتے ہوں کنول جیسے اس طرح سے ہنستی ہیں معصوم تمنائیں جس طرح سے بچوں کے ہاتھوں میں نئے پیسے
مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سے کھیلنے والے دعا اپنے لیے مانگ اب دعا سے کھیلنے والے تجھے بھی ایک دن احساس تنہائی رلا دے گا اکیلے بیٹھ کر اپنی ادا سے کھیلنے والے
ہمارے اہل چمن ہم سے سرگراں تو نہیں وہ چار تنکے سہی ننگ آشیاں تو نہیں ہمارے چند نشیمن جلے بلا سے جلے ہمارا سارا گلستاں دھواں دھواں تو نہیں
ذرا دم تو لے لے طوفاں کہ تھکا ہے راستے کا مرے دم کے توڑنے میں ترا دم نہ ٹوٹ جائے وہی سر بلند محفل جسے آئے سرفروشی وہی زندگی کا مالک جو اجل پہ مسکرائے