پریم چندؔ ایک تھا ایک سے اک جہاں بن گیا
مفلسی تھی تو اس میں بھی اک شان تھی کچھ نہ تھا کچھ نہ ہونے پہ بھی آن تھی چوٹ کھاتی گئی چوٹ کرتی گئی زندگی کس قدر مردہ میدان تھی جو بظاہر شکستہ سا اک ساز تھا وہ کروڑوں دکھے دل کی آواز تھا راہ میں گرتے پڑتے سنبھلتے ہوئے سامراجی کے تیور بدلتے ہوئے آ گئے زندگی کے نئے موڑ پر موت کے راستے ...