طوفاں سے تھپیڑوں کے سہارے نکل آئے
طوفاں سے تھپیڑوں کے سہارے نکل آئے ڈوبے تھے بری طرح سے بارے نکل آئے پتھر پہ پڑی چوٹ شرارے نکل آئے بے درد بھی ہمدرد ہمارے نکل آئے اب تک کوئی تسکین کی صورت نہیں نکلی دن ڈھل گیا شام آ گئی تارے نکل آئے ان کو کسی حالت میں نہ بخشے گا کنارا اوروں کو ڈبو کر جو کنارے نکل آئے دیکھے تو ...