Nazeer Akbarabadi

نظیر اکبرآبادی

میر تقی میر کے ہم عصر ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں ، ہولی ، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور

One of the most prominent classical Urdu poets who wrote extensively on Indian culture & festivals. Contemporary of Miir Taqi Miir.Famous for his poems on Holi, Diwali and other festivals.

نظیر اکبرآبادی کی غزل

    ادھر اس کی نگہ کا ناز سے آ کر پلٹ جانا

    ادھر اس کی نگہ کا ناز سے آ کر پلٹ جانا ادھر مرنا تڑپنا غش میں آنا دم الٹ جانا کہوں کیا کیا میں نقشے اس کی ناگن زلف کے یارو لپٹنا اڑ کے آنا کاٹ کھانا پھر پلٹ جانا اگر ملنے کی دھن رکھنا تو اس ترکیب سے ملنا سرکنا دور ہٹنا بھاگنا اور پھر لپٹ جانا نہ ملنے کا ارادہ ہو تو یہ عیاریاں ...

    مزید پڑھیے

    اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا

    اس کے شرار حسن نے شعلہ جو اک دکھا دیا طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا پھر کے نگاہ چار سو ٹھہری اسی کے روبرو اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا میرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابر و برق اس نے مجھے رلا دیا میں نے اسے ہنسا دیا میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں چاہا ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا

    اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا تو آ لپٹئے گلے سے اے جاں جھمک سے کر جھپ چراغ ٹھنڈا ہم اور تم جاں اب اس قدر تو محبتوں میں ہیں ایک تن من لگایا تم نے جبیں پہ صندل ہوا ہمارا دماغ ٹھنڈا لبوں سے لگتے ہی ہو گئی تھی تمام سردی دل و جگر میں دیا تھا ساقی نے رات ہم کو کچھ ایسے ...

    مزید پڑھیے

    جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

    جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو علاج کیا کریں حکما تپ جدائی کا سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو

    مزید پڑھیے

    کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا

    کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا کہ جس کے غم سے مرا دل ہوا ہے باولیا تمام گوروں کے حیرت سے رنگ اڑ جاتے جو گھر سے آج نکلتا وہ میرا سانولیا تجھے خبر نہیں بلبل کے باغ سے گلچیں بڑی سی پھولوں کی اک بھر کے لے گیا ڈلیا نظیرؔ یار کی ہم نے جو کل ضیافت کی پکایا قرض منگا کر پلاؤ اور قلیا سو ...

    مزید پڑھیے

    بحر ہستی میں صحبت احباب

    بحر ہستی میں صحبت احباب یوں ہے جیسے بروئے آب حباب گردش آسماں میں ہم کیا ہیں پر کاہے میانۂ گرداب بادۂ ناب کیا ہے خون جگر زردئ رنگ ہے شب مہتاب جس کو رقص و سرود کہتے ہیں وہ بھی ہے اک ہوائے خانہ خراب عمر کہتے ہیں جس کو وہ کیا ہے مثل تحریر موج نقش بر آب جسم کیا روح کی ہے جولا ...

    مزید پڑھیے

    ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا

    ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا اور چوم کے منہ اس کا سینے سے لگا لوں گا گر تیر لگاوے گا پیہم وہ نگہ کے تو میں اس کی جراحت کو ہنس ہنس کے اٹھا لوں گا دل جاتے ادھر دیکھا جب میں نے نظیرؔ اس کو روکا ارے وہ تجھ کو لے گا تو میں کیا لوں گا واں ابرو و مژگاں کے ہیں تیغ و سناں چلتے ٹک ...

    مزید پڑھیے

    آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا

    آن رکھتا ہے عجب یار کا لڑ کر چلنا ہر قدم ناز کے غصے میں اکڑ کر چلنا جتنے بن بن کے نکلتے ہیں صنم نام خدا سب میں بھاتا ہے مجھے اس کا بگڑ کر چلنا ناتوانی کا بھلا ہو جو ہوا مجھ کو نصیب اس کی دیوار کی اینٹوں کو رگڑ کر چلنا اس کی کاکل ہے بری مان کہا اے افعی دیکھیو اس سے تو کاندھا نہ رگڑ ...

    مزید پڑھیے

    ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے

    ٹک ہونٹ ہلاؤں تو یہ کہتا ہے نہ بک بے اور پاس جو بیٹھوں تو سناتا ہے سرک بے کہتا ہوں کبھی گھر میں مرے آ تو ہے کہتا چوکھٹ پہ ہماری کوئی دن سر تو پٹک بے جب بدر نکلتا ہے تو کہتا ہے وہ مغرور کہہ دو اسے یاں آن کے اتنا نہ چمک بے پردہ جو الٹ دوں گا ابھی منہ سے تو دم میں اڑ جائے گی چہرے کی ...

    مزید پڑھیے

    جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا

    جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا سنتے ہی اس کے میرا کلیجہ الٹ گیا فرہاد تھا تو شیریں کے غم میں موا غریب لیلیٰ کے غم میں آن کے مجنوں بھی لٹ گیا میں عشق کا جلا ہوں مرا کچھ نہیں علاج وہ پیڑ کیا ہرا ہو جو جڑ سے اکھٹ گیا اتنا کوئی کہے کہ دوانے پڑا ہے کیا جا دیکھ ابھی ادھر کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5