اردو زبان کے پہلے عوامی شاعر کی غزل : رہے رہے ، نہ رہے
" رہے وہ شوخ جو بزمِ جہاں کی رونق ہے ؛ ہمارا کیا اگر ہم رہے رہے، نہ رہے "
میر تقی میر کے ہم عصر ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں ، ہولی ، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور
One of the most prominent classical Urdu poets who wrote extensively on Indian culture & festivals. Contemporary of Miir Taqi Miir.Famous for his poems on Holi, Diwali and other festivals.
" رہے وہ شوخ جو بزمِ جہاں کی رونق ہے ؛ ہمارا کیا اگر ہم رہے رہے، نہ رہے "
یہ جو گل رو نگار ہنستے ہیں فتنہ گر ہیں ہزار ہنستے ہیں عرض بوسے کی سچ نہ جانو تم ہم تو اے گلعذار ہنستے ہیں دل کو دے مفت ہنستے ہیں ہم یوں جس طرح شرمسار ہنستے ہیں ہم جو کرتے ہیں عشق پیری میں خوبرو بار بار ہنستے ہیں جو قدیمی ہیں یار دوست نظیرؔ وہ بھی بے اختیار ہنستے ہیں
گئے ہم جو الفت کی واں راہ کرنے ارادے سے چاہت کے آگاہ کرنے کہا اس نے آنا ہوا کس سبب سے کہا آپ کے دل کو ہم راہ کرنے بٹھایا اور اک چٹکی لی ایسی جس سے لگے منہ بنا ہم وہیں آہ کرنے جو یہ شکل دیکھی تو چٹکی بجا کر کہا یوں نظیرؔ اور لگا واہ کرنے میاں ایک چٹکی سے کی آہ رک کر اسی منہ سے آئے ...
ہوئے خوش ہم ایک نگار سے ہوئے شاد اس کی بہار سے کبھی شان سے کبھی آن سے کبھی ناز سے کبھی پیار سے ہوئی پیرہن سے بھی خوش دلی کلی دل کی اور بہت کھلی کبھی طرے سے کبھی گجرے سے کبھی بدھی سے کبھی ہار سے وہ کناری ان میں جو تھی گندھی اسے دیکھ کر بھی ہوئی خوشی کبھی نور سے کبھی لہر سے کبھی تاب ...
کھولی جو ٹک اے ہم نشیں اس دل ربا کی زلف کل کیا کیا جتائے خم کے خم کیا کیا دکھائے بل کے بل آتا جو باہر گھر سے وہ ہوتی ہمیں کیا کیا خوشی گر دیکھ لیتے ہم اسے پھر ایک دم یا ایک پل دن کو تو بیم فتنہ ہے ہم اس سے مل سکتے نہیں آتا ہے جس دم خواب میں جب دیکھتے ہیں بے خلل کیا بے بسی کی بات ہے ...
چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے کافر تری نظروں میں کچھ اور ہی چھل بل ہے بالا بھی چمکتا ہے جگنو بھی دمکتا ہے بدھی کی لپٹ تس پر تعویذ کی ہیکل ہے گورا وہ گلا نازک اور پیٹ ملائی سا سینے کی صفائی بھی ایسی گویا مخمل ہے وہ حسن کے گلشن میں مغرور نہ ہو کیوں کر بڑھتی ہوئی ڈالی ہے ...
ہوا جو آ کے نشاں آشکار ہولی کا بجا رباب سے مل کر ستار ہولی کا سرود رقص ہوا بے شمار ہولی کا ہنسی خوشی میں بڑھا کاروبار ہولی کا زباں پہ نام ہوا بار بار ہولی کا خوشی کی دھوم سے ہر گھر میں رنگ بنوائے گلال عبیر کے بھر بھر کے تھال رکھوائے نشوں کے جوش ہوئے راگ رنگ ٹھہرائے جھمکتے روپ کے ...
جب آئی ہولی رنگ بھری سو ناز و ادا سے مٹک مٹک اور گھونگھٹ کے پٹ کھول دئے وہ روپ دکھلا چمک چمک کچھ مکھڑا کرتا دمک دمک کچھ ابرن کرتا جھلک جھلک جب پاؤں رکھا خوش وقتی سے تب پائل باجی جھنک جھنک کچھ اچھلیں سنتیں ناز بھریں کچھ گودیں آئیں تھرک تھرک یہ روپ دکھا کر ہولی کے جب مین رسیلے ٹک ...
نقش یاں جس کے میاں ہاتھ لگا پیسے کا اس نے تیار ہر اک ٹھاٹھ کیا پیسے کا گھر بھی پاکیزہ عمارت سے بنا پیسے کا کھانا آرام سے کھانے کو ملا پیسے کا کپڑا تن کا بھی ملا زیب فزا پیسے کا جب ہوا پیسے کا اے دوستو آ کر سنجوگ عشرتیں پاس ہوئیں دور ہوئے من کے روگ کھائے جب مال پوے دودھ دہی موہن ...
یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ کرتا ہے جس طرح کہ دل بے قرار آہ ہم عید کے بھی دن رہے امیدوار آہ ہو جی میں اپنے عید کی فرحت سے شاد کام خوباں سے اپنے اپنے لیے سب نے دل کے کام دل کھول کھول سب ملے آپس میں خاص و عام آغوش خلق گل بدنوں سے بھرے تمام خالی رہا پر ایک ہمارا کنار آہ کیا ...
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی ...
مکھڑے کو جو اس کے ہم نے جا کر دیکھا سنکھ تو نہیں یہ چھپ چھپا کر دیکھا وہ حسن نظر پڑا کہ جس کا ہم نے جب رات ہوئی تو مہ کو چاکر دیکھا
پس اس کے گئے سپر جو ہم کر سینہ دل کرنے کو اس کی جاہ کا گنجینہ جب ہم نے کہا دیکھنے آئے ہیں تمہیں سن کر یہ لگا وہ دیکھنے آئنہ
کیا حال اب اس سے اپنے دل کا کہئے منظور نہیں یہ بھی کہ بے جا کہئے مشکل ہے مہینوں میں نہ جاوے جو کہا پھر ملیے جو ایک دم تو کیا کیا کہئے
رکھتی ہے جو خوش چاہ تمہاری ہم کو اور کرتی ہے شاد باری باری ہم کو کچھ دیر جو کہ تھی ہم نے دل دیتے وقت اب تک ہے اسی کی سرشاری ہم کو
ناصح نہ سنا سخن مجھے جس تس کے جو تو نے کہا یہ آوے جی میں کس کے کیوں کر نہ ملوں بھلا جی میں اس سے آہ دل رہ نہ سکے بغیر دیکھے جس کے