جتنا باقی ہے وہ امکان اٹھا رکھا ہے
جتنا باقی ہے وہ امکان اٹھا رکھا ہے فکر فردا میں یہ اوسان اٹھا رکھا ہے کیسے مڑ کے تجھے دیکھیں گے تو ہی سوچ ذرا ہم نے سر پہ ابھی سامان اٹھا رکھا ہے
جتنا باقی ہے وہ امکان اٹھا رکھا ہے فکر فردا میں یہ اوسان اٹھا رکھا ہے کیسے مڑ کے تجھے دیکھیں گے تو ہی سوچ ذرا ہم نے سر پہ ابھی سامان اٹھا رکھا ہے
زندگی سے جواب مانگوں گا ہر گھڑی کا حساب مانگوں گا میں نے دیکھے جو خواب میرے نہ تھے اب کے میں انتخاب مانگوں گا
ایک امید کا بھی تو نے سہارا نہ کیا کوئی حامی نہ بھری کوئی اشارہ نہ کیا میں تعاقب میں تیرے کب سے ہوں اے مستقبل اور تو ہے کہ پلٹنا بھی گوارہ نہ کیا
جسم کا رکھ رکھاؤ جاری رہے خوشیوں کا مول بھاؤ جاری رہے اور کچھ بھی نہ ہو تو یوں ہی سہی زندگی سے لگاؤ جاری رہے
جو کبھی کھو دیں کہیں خود کو تو پائیں بہتر توڑ کر پھر سے بنائیں تو بنائیں بہتر ادھ جلا چھوڑ نہ دیں ہم کو زمانے والے آگ ہم خود ہی لگائیں تو لگائیں بہتر
خواب ہے اور انہیں پانے کی عظمت بھی ہے علم ہے ضبط ہے اور جذبۂ محنت بھی ہے ان سے بڑھ کر بھی ہے کچھ آج کی عورت کا نشاں اتنا سب کچھ ہے مگر پھر بھی وہ عورت بھی ہے
جسم کو چھوڑ کے روداد ہوئے جاتے ہیں اپنی ہی موت پہ ہم شاد ہوئے جاتے ہیں بات یہ کیوں نہیں ہے جشن منانے کی کہو ہجر کی قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں
رات ڈھلنی ہے دن نکلنا ہے اور بہت دور مجھ کو چلنا ہے یوں گیا بس میں اور یوں آیا صرف یہ پیرہن بدلنا ہے