نوین جوشی کی غزل

    دھوپ بڑھنے کے جو آثار ہوئے

    دھوپ بڑھنے کے جو آثار ہوئے کتنے سائے کے طرف دار ہوئے تپ کے کندن وہ بنیں گے کیسے جو جھلسنے کو نہ تیار ہوئے ہے دوا عشق تو بیماری بھی ہم دوا کے لیے بیمار ہوئے جو نہ جسموں کے طلب گار ہوئے صرف وہ وصل کے حق دار ہوئے قید سے ان کو چھڑائے کیسے اپنے ہاتھوں جو گرفتار ہوئے نہ ہوئے غم زدہ ...

    مزید پڑھیے

    نبھانا ہو وعدہ تو ایسا کریں

    نبھانا ہو وعدہ تو ایسا کریں کہ وعدے سے پہلے ارادہ کریں ہر اک بار اپنی حدیں آنک کر ہر اک بات حد سے زیادہ کریں تلاطم کی دھن جن کا سنگیت ہے وہ طوفاں کے ہی گیت گایا کریں ادھورا رہے گا یہ رشتہ اگر ہم اک دوسرے کو نہ پورا کریں یہ پانی کا ہے فرض ہر حال میں سو آنسو بھی نکلے تو سبزہ ...

    مزید پڑھیے

    راہبر تیرا ستارہ نہ رہے

    راہبر تیرا ستارہ نہ رہے جستجو ایسی خدارا نہ رہے جو نہ اک دوجے کا ہو ہم میں گماں ہم میں پھر کچھ بھی ہمارا نہ رہے جسم ہی جسم ہو اور روح نہ ہو وصل وہ مجھ کو گوارا نہ رہے منتظر ہو نہ تیری آنکھیں تو میری کشتی کا کنارہ نہ رہے پیار آنکھوں سے چھلکتا ہی ہے دل کے پیمانے میں سارا نہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اس شوق کا اظہار کریں بھی کہ نہیں

    اپنے اس شوق کا اظہار کریں بھی کہ نہیں پیار ویسے بھی ہے دشوار کریں بھی کہ نہیں کیا ضروری ہے یہ اقرار کی محتاج رہے ہم محبت کو یوں لاچار کریں بھی کہ نہیں ہو گئیں عشق کی نیلام دکانیں کتنی یہ خسارے کا ہے بیوپار کریں بھی کہ نہیں کہتے ہیں اس سے محبت کا مزہ بڑھتا ہے کرنی ہے چھوٹی سی ...

    مزید پڑھیے

    ذات کا میری جو چہرہ ہوتا

    ذات کا میری جو چہرہ ہوتا میرے گھر میں نہیں شیشہ ہوتا یہ کنواں اتنا نہ گہرا ہوتا جو کسی نے کبھی جھانکا ہوتا تم نے پودے کو تھا سائے میں رکھا دھوپ میں رکھتے تو زندہ ہوتا جو اندھیروں میں اجالے پلتے تو اجالوں سے اندھیرا ہوتا تو حقیقت تھا نظر آیا نہیں خواب بن جاتا تو دیکھا ہوتا تو ...

    مزید پڑھیے

    آج کے دن کو یوں بھر جاؤں گا

    آج کے دن کو یوں بھر جاؤں گا بن کے اک عمر گزر جاؤں گا صبح میں پیدا ہوا تھا پھر سے اور پھر رات کو مر جاؤں گا میں تعاقب میں ہوں اپنے دل کے یہ جدھر جائے ادھر جاؤں گا یہ صلیب اور یہ کیلیں مجھ سے جو نکالو گے بکھر جاؤں گا اس لڑائی میں مرے ڈر سے مری چھوڑ کر اپنی سپر جاؤں گا ہار کے بھی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں

    کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں ہم تو مدت سے یہ سامان نہیں رکھتے ہیں زخم رکھتے ہیں نہ رکھتے ہیں نشاں اب کوئی چاک ہو ایسا گریبان نہیں رکھتے ہیں بے حسی کا یہ ہماری ذرا عالم دیکھو جسم رکھتے ہیں مگر جان نہیں رکھتے ہیں ہم سے اغیار کی پہچان کہاں سنبھلے گی جب ہم اپنوں کی ہی پہچان ...

    مزید پڑھیے

    کر نہ تو بات جاودانی کی

    کر نہ تو بات جاودانی کی انتہا طے ہے ہر کہانی کی بھاپ ہونا تو تیری قسمت ہے ایک تصویر ہے تو پانی کی کچھ تغیر سے خوف کھاتے ہیں کچھ عبادت کریں روانی کی ہم پہ حسن حروف ہے ضائع ہم زیارت پہ ہے معانی کی کیا سہی اور کیا غلط ہوگا بات ہے تیری ترجمانی کی تم کرو بات زرد پتوں کی ہم کرے بات ...

    مزید پڑھیے

    تو فرشتہ نہ ہوا تو نہ پشیماں ہونا

    تو فرشتہ نہ ہوا تو نہ پشیماں ہونا ہے بڑی شے یہاں انساں کا بھی انساں ہونا مانا مشکل ہے مگر اب یہ ہنر سیکھیں گے کیا خبر تھی کہ پڑے گا ہمیں آساں ہونا کیا ضروری ہے تقابل کسی کا شیشے سے ذات میں ہو نہ اگر عکس پہ نازاں ہونا تنگ جانی ہے یوں بھی خال و خد و پیکر میں دم نہیں گھوٹ دے احساس ...

    مزید پڑھیے

    کوئی یقین کرے کیوں کسی گواہی پہ

    کوئی یقین کرے کیوں کسی گواہی پہ مجھے یقیں نہیں جب اپنی بے گناہی پے اٹھے نہ ظل الٰہی پہ انگلی اب کوئی یہ حرف ہار کا آئے کسی سپاہی پہ نشان راہی کے راہوں پہ ہو نہ ہو لیکن نشان راہوں کے اکثر ملیں گے راہی پہ ادا یہ سیکھ ہی لیتا اگر پتہ ہوتا سروں کے دام تو لگنے ہیں کج کلاہی پہ رہوں گا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4