نوین جوشی کی غزل

    وہ زخم چھوڑو اب اس کا نشان باقی نہیں

    وہ زخم چھوڑو اب اس کا نشان باقی نہیں سو میرے حق میں کوئی بھی بیان باقی نہیں جفا بھی کرتے وہ تو اطمینان یہ ہوتا کہ اب میری وفا کا امتحان باقی نہیں بچے ہیں فاصلے بیچ اپنے سو نبھائیں گے سوائے ان کے تو کچھ درمیان باقی نہیں کریں گے کیا بھلا کردار وہ پرانے سب پرانی آج وہ جب داستان ...

    مزید پڑھیے

    کریں گے چوٹ ہواؤں پہ کارگر تو ہو

    کریں گے چوٹ ہواؤں پہ کارگر تو ہو بہاؤ ان کا بدل جائے یہ اثر تو ہو سفر یہ زندگی کا اس قدر ہے لازم کیوں سفر میں ہم ہیں مگر ہم میں یہ سفر تو ہو معانی منزلوں اور راستوں کے ہے تب ہی کہ لوٹنے کو مسافر کے کوئی گھر تو ہو ہاں لطف روٹھنے کا بھی انہیں ملے لیکن ہمارے پاس منانے کا کچھ ہنر تو ...

    مزید پڑھیے

    جہاں بچھڑے تھے اگر لوگ وہاں مل جاتے

    جہاں بچھڑے تھے اگر لوگ وہاں مل جاتے لوٹنے والوں کو پھر گھر کے نشاں مل جاتے دل نوردوں کا رہا مرحلوں سے یہ شکوہ جہاں امید تھی اے کاش وہاں مل جاتے مل گیا تم کو تمہارا جہاں ہم کو اپنا تم ہمیں ملتے تو پھر دونوں جہاں مل جاتے ہم نے پیری میں پھر اس دل کو کھنگالا ہی نہیں شرم آتی اگر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں

    کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں ہم تو مدت سے یہ سامان نہیں رکھتے ہیں زخم رکھتے ہیں نہ رکھتے ہیں نشاں اب کوئی چاک ہو ایسا گریبان نہیں رکھتے ہیں بے حسی کا یہ ہماری ذرا عالم دیکھو جسم رکھتے ہے مگر جان نہیں رکھتے ہیں ہم سے اغیار کی پہچان کہاں سنبھلے گی جب ہم اپنوں کی ہی پہچان ...

    مزید پڑھیے

    فریضہ ہے سو ہم نبھایا کریں گے

    فریضہ ہے سو ہم نبھایا کریں گے چراغوں کو مجلس میں لایا کریں گے اندھیروں اجالوں کی ہے یہ لڑائی بجھاؤ گے تم ہم جلایا کریں گے چھپاؤ گے چہرہ کہاں تک تم اپنا ہم اک آئنہ بن کے آیا کریں گے سبھی در اگر بند کرکے بھی بیٹھو عیاں ہو کے پھر بھی دکھایا کریں گے کبھی گھر ہمیں بھی بلا کر تو ...

    مزید پڑھیے

    میرے خوابوں کو مجھ سے گلہ رہ گیا

    میرے خوابوں کو مجھ سے گلہ رہ گیا میں حقیقت میں ہی مبتلا رہ گیا میں بھی قصے سناتا سفر کے مگر یاد مجھ کو بس اک مرحلہ رہ گیا رہ گئے کتنے کردار بھیتر مرے میرے بھیتر مرا قافلہ رہ گیا فاصلوں میں رہا قربتوں کا گماں قربتوں میں کہیں فاصلہ رہ گیا خیریت پوچھنا اور بتانا کبھی نسبتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو نیند ملی تو کسی کو خواب ملا

    کسی کو نیند ملی تو کسی کو خواب ملا ہر اک بشر کو یاں موقع انتخاب ملا وہ ناپ تول کے پایا تھی آرزو جس کی نہیں تھی آرزو جس کی وہ بے حساب ملا کھلا ملا کوئی چہرہ ڈھکا ملا کوئی سبھی کی ذات پہ ہم کو مگر حجاب ملا نقاب اتنے ہیں چہرہ ہی بھول جائیں گے اگر وہ شیشۂ دل میں نہ بے نقاب ملا رہے ...

    مزید پڑھیے

    قید شیشے میں رہوں عکس بنوں شاد رہوں

    قید شیشے میں رہوں عکس بنوں شاد رہوں یا کہ پھر پھوڑ کے یہ آئنہ آزاد رہوں یوں ہی جیتا رہوں گمنام اندھیروں میں کہیں یا کروں صبح کوئی ایسی کہ میں یاد رہوں یا تو ایجاد کروں اپنے جہان نو کی یا تو کھنڈر میں مرے اپنے ہی برباد رہوں گھونٹ دوں اپنی سماعت کا گلا تو کچھ ہو ورنہ دل کی فغاں ...

    مزید پڑھیے

    وہ زخم چھوڑو اب اس کا نشان باقی نہیں

    وہ زخم چھوڑو اب اس کا نشان باقی نہیں سو میرے حق میں کوئی بھی بیان باقی نہیں بچے ہیں فاصلہ بیچ اپنے سو نبھائیں گے سوائے ان کے تو کچھ درمیان باقی نہیں کریں گے کیا بھلا کردار وہ پرانے سب پرانی آج وہ جب داستان باقی نہیں زمیں نے پیر مرے باندھ کر نہیں رکھے مری اڑان میں ہی آسمان باقی ...

    مزید پڑھیے

    روز طوفاں کو گزارا میں کروں

    روز طوفاں کو گزارا میں کروں اور پھر گھر کو سنوارا میں کروں ایک امید کا تنکا ہی سہی خود کو اس سے ہی ابھارا میں کروں منتظر ہے مرا سیلاب ابھی اس کی ضد ہے کہ اشارہ میں کروں دھوپ ہی دھوپ ہو تو مشکل ہے کیسے سائے سے کنارا میں کروں مسئلہ اک دفعہ میں بس یہ ہے دل تو چاہے گا دوبارہ میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4