نوین جوشی کی غزل

    زخم ناسور کوئی ہونے سے

    زخم ناسور کوئی ہونے سے درد اگتا ہے درد بونے سے وہ تھا مرکوز میرے مرکز پہ اور ادھڑتا رہا میں کونے سے چلو اب ہنس کے دیکھ لیتے ہیں دل پگھلتے نہیں ہیں رونے سے اسے ہم سود اب کہے یا زیاں مل گیا خواب نیند کھونے سے وہ اندھیروں میں ہی رہے آخر بجھ گئے جو چراغ ڈھونے سے دن میں بھی رات کا ...

    مزید پڑھیے

    جب صبح ہوئی آئی جب سانجھ ڈھلی آئی

    جب صبح ہوئی آئی جب سانجھ ڈھلی آئی ہے یاد تری تجھ سی بے باک چلی آئی تھا بے نمو سا مجھ میں اک پودھا محبت کا یہ معجزہ ہے تیرا جو اس پہ کلی آئی احسان ہوا کا ہے بیکل مری سانسوں پہ خوشبو ترے دامن کی لے کر یہ چلی آئی آواز تری رن جھن پائل کی ہو جیسے دھن باتوں میں تری گھل کے مصری کی ڈلی ...

    مزید پڑھیے

    ہم اب کیا بتائیں کہاں تک گئے

    ہم اب کیا بتائیں کہاں تک گئے گماں کے مسافر گماں تک گئے حصار جہاں تک ہے دشت انا دکھا بس یہ منظر جہاں تک گئے نہ جذبات سے یہ سفر طے ہوا نہ دل سے کبھی یہ زباں تک گئے کہ حاصل یہی موسموں کا رہا بہاروں کے پتے خزاں تک گئے مسافت کسی کی یہیں تک رہی مکاں سے چلے تو دکاں تک گئے بتاؤ قضا پر ...

    مزید پڑھیے

    یہ جسم مرا تھک کے بہت چور ہوا ہے

    یہ جسم مرا تھک کے بہت چور ہوا ہے کس کار مسلسل پہ یہ معمور ہوا ہے وہ نیند ملی ہے کہ جو پوری نہیں ہوتی وہ خواب ملا ہے کہ جو معذور ہوا ہے جو خوف جراحت میں کھلا چھوڑ دیا تھا وہ زخم موادوں بھرا ناسور ہوا ہے اک بار اگر سانحہ میں سود جو دیکھا پھر ذوق حوادث بڑا بھرپور ہوا ہے کچھ وقت ذرا ...

    مزید پڑھیے

    روز طوفاں کو گزارا میں کروں

    روز طوفاں کو گزارا میں کروں اور پھر گھر کو سنوارا میں کروں ایک امید کا تنکا ہی سہی خود کو اس سے ہی ابھارا میں کروں منتظر ہے میرا سیلاب ابھی اس کی ضد ہے کہ اشارہ میں کروں دھوپ ہی دھوپ ہو تو مشکل ہے کیسے سائے سے کنارہ میں کروں مسئلہ اک دفعہ میں بس یہ ہے دل تو چاہے گا دوبارہ میں ...

    مزید پڑھیے

    بات نکلی تو مری ذات پر آ کر ٹھہری

    بات نکلی تو مری ذات پر آ کر ٹھہری ذات سے نکلی تو اوقات پر آ کر ٹھہری اپنے حق میں کبھی اثبات نہیں دے پایا بے گناہی مری اس بات پر آ کر ٹھہری جب بھی اٹھی کبھی چہروں کے لیے میری نظر ہر دفعہ صرف حجابات پر آ کر ٹھہری وہ جو اک بات کہ جس پر نہ کبھی میں ٹھہرا سب کی ہر بات اسی بات پر آ کر ...

    مزید پڑھیے

    جو جوابوں سے بھرے تھے وہ سوالی ہو گئے

    جو جوابوں سے بھرے تھے وہ سوالی ہو گئے آخرش تو سارے برتن پھر سے خالی ہو گئے اپنی مٹی میں دبے جو اٹھ نہ پائے وہ کبھی دوسروں میں جو اگے وہ لا زوالی ہو گئے نہ تھی خوابوں کی مرے اشکال نہ پیکر کوئی تیری آنکھوں سے جو گزرے تو غزالی ہو گئے پنکھڑی جب بند تھی تو تھا زر گل رائیگاں اور کھولی ...

    مزید پڑھیے

    رنج یوں راہ مسافت میں ملے

    رنج یوں راہ مسافت میں ملے کچھ کمائے کچھ وراثت میں ملے خواب تک میں آج کل رسنے لگے زخم ہم کو جو حقیقت میں ملے اب نہیں ہے تاب دل سے ملنے کی کیا پتہ وہ کیسی حالت میں ملے ایک دوجے سے رقابت تھی جنہیں ایک دوجے کی حراست میں ملے جو اندھیروں میں نہ شائستہ رہے وہ اجالوں سے خجالت میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی پل میں بدلتا ہے نظارہ سارا

    ایک ہی پل میں بدلتا ہے نظارہ سارا اور اس پل کے لیے باقی تماشا سارا زندگی نے نہ کسی امتحاں کو دہرایا تجربہ کام ہی آیا نہیں اپنا سارا دھوپ میں جلنا ہے اس کو جو شجر بن کے جیے اس کے سائے میں رہے خوش یہ زمانہ سارا اس کی رحمت کا خزانہ وہ لٹائے ایسے جس نے مانگا نہیں جو اس نے وہ پایا ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئی آواز سستی اور مہنگا شور ہے

    ہو گئی آواز سستی اور مہنگا شور ہے بات بیٹھی ہے سکڑ کر اور پھیلا شور ہے یہ ترا ہے یہ مرا ہے اور وہ اس کا شور ہے ٹکڑے ٹکڑے دنیا نے ٹکڑوں میں بانٹا شور ہے لال ہو نیلا ہو نارنگی ہو یا پھر ہو ہرا رنگ الگ خود غرضی کے پر سب کا اک سا شور ہے یہ سیاست کی دکانوں میں مسلسل بکتا ہے مذہبوں کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4