Nasir Zaidi

ناصر زیدی

ناصر زیدی کی غزل

    تم تو اوروں پہ نہ پتھر پھینکو

    تم تو اوروں پہ نہ پتھر پھینکو آئینہ خانوں میں رہنے والو کچھ تو ہو صورت تجدید وفا میں بھی سوچوں ذرا تم بھی سوچو میں بہرحال تمہارا ہوں مگر کاش تم بھی مجھے اپنا سمجھو نہ سنو ٹوٹے ہوئے دل کی صدا دو گھڑی پاس تو آ کر بیٹھو کھول کر بند دریچہ ناصرؔ ڈوبتے چاند کا منظر دیکھو

    مزید پڑھیے

    جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری

    جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری وہ ایک غارت جاں ہی متاع جاں ٹھہری یہ غم نہیں کہ مرا آشیاں رہا نہ رہا خوشی یہ ہے کہ یہیں برق بے اماں ٹھہری وہ تیری چشم فسوں ساز تھی کہ موج کرم وہیں وہیں پہ میں ڈوبا جہاں جہاں ٹھہری کبھی تھے اس میں مری زندگی کے ہنگامے وہ اک گلی جو گزر گاہ دشمناں ...

    مزید پڑھیے

    وہ رعب حسن تھا اس کا سلام بھول گیا

    وہ رعب حسن تھا اس کا سلام بھول گیا کرا سکا نہ تعارف میں نام بھول گیا ادھر ادھر کی ہوئی خوب گفتگو اس سے بہت ضروری تھا سب سے جو کام بھول گیا غم جہاں نے کیا اس قدر خراب کہ میں جو دوستوں میں گزاری تھی شام بھول گیا زبان غیر سے میں تیرا تذکرہ سن کر ذرا سی دیر میں سب احترام بھول ...

    مزید پڑھیے

    احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا

    احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا میں شہر جاں کو راکھ بنا دینے آؤں گا لکھے تھے حرف شوق جو میں نے ترے لیے اب آنسوؤں سے ان کو مٹا دینے آؤں گا تو نے عطا کیے ہیں مجھے کتنے درد و غم اس لطف خاص کا میں صلہ دینے آؤں گا سمجھا دیا ہے تو نے محبت ہے اک خطا میں اس خطا کی خود کو سزا دینے آؤں ...

    مزید پڑھیے

    مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا

    مثال سادہ ورق تھا مگر کتاب میں تھا وہ دن بھی تھے میں ترے عشق کے نصاب میں تھا بھلا چکا ہے تو اک بار مجھ سے آ کر سن وہی سبق جو کبھی تیرے دل کے باب میں تھا جو آج مجھ سے بچھڑ کر بڑے سکون میں ہے کبھی وہ شخص مرے واسطے عذاب میں تھا اسی نے مجھ کو غم و سوز جاوداں بخشا وہ ایک چاند کا ٹکڑا سا ...

    مزید پڑھیے

    اس توقع پہ کھلا رکھا گریباں اپنا

    اس توقع پہ کھلا رکھا گریباں اپنا جانے کب آن ملے جان بہاراں اپنا لمحے لمحے کی رفاقت تھی کبھی وجہ نشاط موسم ہجر ہوا اب سر و ساماں اپنا نت نئے خواب دکھاتا ہے اجالوں کے لئے وہ کہ ہے دشمن جاں دشمن ایماں اپنا نکہت گل ہی نہیں خاک بھی ہے ہم کو عزیز اپنا صحرا ہے چمن اپنا خیاباں ...

    مزید پڑھیے

    بھلا کب تک کوئی تنہا رہے گا

    بھلا کب تک کوئی تنہا رہے گا کہاں تک یہ نگر سونا رہے گا شب فرقت تو کٹ جائے گی لیکن تمہارے جور کا چرچا رہے گا ہمیں ترک تعلق بھی گوارا زمانہ کب مگر چپکا رہے گا جہاں بھی نام آئے گا تمہارا یقیناً تذکرہ میرا رہے گا جنون عشق کی وارفتگی پر سبک سر مدتوں صحرا رہے گا

    مزید پڑھیے

    شوق دل وارفتہ کا اک صید زبوں ہوں!

    شوق دل وارفتہ کا اک صید زبوں ہوں! کھلتا ہی نہیں بھید کہ میں کون ہوں کیوں ہوں بس میں ہے کہاں اہل خرد کے مجھے سمجھیں جو آنکھ سے اوجھل ہے میں وہ عکس دروں ہوں خالق ہوں بہاروں کا سر گلشن ہستی جو پھول کھلاتا ہے وہ اک موجۂ خوں ہوں میں دست زمانہ کے مٹائے نہ مٹوں گا اک نقش وفا ہوں کہ سر ...

    مزید پڑھیے

    پھول صحرا میں کھلا دے کوئی

    پھول صحرا میں کھلا دے کوئی میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی کوئی سناٹا سا سناٹا ہے کاش طوفان اٹھا دے کوئی جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل اس ستم گر کا پتہ دے کوئی جس سے ٹوٹے مرا پندار وفا مجھ کو ایسی بھی سزا دے کوئی رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی جو میرے پاس بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم عجب سلسلۂ سیر و سفر رکھتے ہیں

    ہم عجب سلسلۂ سیر و سفر رکھتے ہیں ہر قدم ایک نئی راہ گزر رکھتے ہیں زد پہ طوفان کے کاغذ کا نگر رکھتے ہیں لاکھ سیلاب حوادث ہو مگر رکھتے ہیں اس کے با وصف کہ ہر سمت اندھیرا ہے محیط ہم ہیں وہ لوگ جو امید سحر رکھتے ہیں تیری باتیں تری یادیں ترے رنگین خطوط اپنے ہم راہ یہی زاد سفر رکھتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3