Nasir Zaidi

ناصر زیدی

ناصر زیدی کی غزل

    وہ مرے غم کا مداوا نہیں ہونے دیتا

    وہ مرے غم کا مداوا نہیں ہونے دیتا ذرۂ درد کو صحرا نہیں ہونے دیتا ساتھ رکھتا ہوں ہمیشہ تری یادوں کی دھنک میں کبھی خود کو اکیلا نہیں ہونے دیتا زخم بھرتا ہے نیا زخم لگانے کے لئے کیا مسیحا ہے کہ اچھا نہیں ہونے دیتا جس کے انجام سے ٹوٹے مرا پندار انا میں وہ آغاز دوبارہ نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    روح احساس ہے تہی دامن

    روح احساس ہے تہی دامن دل ہے یا حسرتوں کا اک مدفن پھیلتی جا رہی ہے تاریکی شام محسوس کر رہی ہے تھکن ملتفت جب سے ہے نظر ان کی دل کو در پیش ہے نئی الجھن میری یادوں سے گل بہ داماں ہے ایک زہرہ جمال کا آنگن آدمیت کہیں نہ ہو رسوا زندگی کا بدل رہا ہے چلن ہر ستارہ مرے مقدر کا ان کے ماتھے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی بھولے سے ممکن ہو مری جانب اگر ہونا

    کبھی بھولے سے ممکن ہو مری جانب اگر ہونا تو اوروں کی طرف سے اپنی نظریں پھیر کر ہونا مسلسل ہجر کے صدمے یہ دل اب سہہ نہیں سکتا گھڑی بھر کا جدا ہونا اگر بار دگر ہونا غنیمت ہے کہ اک رسمی تعارف تو میسر ہے نہیں آساں کسی مہ وش کا منظور نظر ہونا نہ ہونا تم کسی کے بھی یہاں پر ہم سفر ...

    مزید پڑھیے

    کہہ رہی ہے یہ کیا صبا کچھ سوچ

    کہہ رہی ہے یہ کیا صبا کچھ سوچ اے حسیں پیکر جفا کچھ سوچ چند روزہ بہار پر مت جا گل کا انجام کیا ہوا کچھ سوچ یہ حسیں رت یہ چاندنی یہ بہار ایسے عالم میں تو نہ جا کچھ سوچ کیا ہوئے رہروان منزل شوق کیوں ہے سنسان راستا کچھ سوچ خار جس سے لپٹ کے روتے تھے آبلہ پا وہ کون تھا کچھ سوچ ہم نہ ...

    مزید پڑھیے

    جانب دشت کبھی تم بھی نکل کر دیکھو

    جانب دشت کبھی تم بھی نکل کر دیکھو دوستو آبلہ پائی کا عمل کر دیکھو میری آشفتہ سری پر نہ ہنسو اے لوگو عشق کی آگ میں خود بھی ذرا جل کر دیکھو تم جو چاہو تو مرے دل کو سکوں مل جائے اپنا انداز نظر کچھ تو بدل کر دیکھو میں تمہیں جینے کے انداز سکھا سکتا ہوں ایک دو گام میرے ساتھ تو چل کر ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ

    آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ جلوہ دکھائے اب تو نئے موسموں کی دھوپ شام فراق گزرے تو سورج طلوع ہو دل چاہتا ہے پھر سے وہی قربتوں کی دھوپ اس میں تمازتیں بھی سہی شدتیں تو ہیں الفت کی چھاؤں سے ہے بھلی نفرتوں کی دھوپ میں اس کے واسطے ہوں بہاروں کی چاندنی اس کا وجود میرے لیے ...

    مزید پڑھیے

    بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں

    بجھی ہے آگ مگر اس قدر زیادہ نہیں دوبارہ ملنے کا امکان ہے ارادہ نہیں کیا ہے وقت نے یوں تار تار پیراہن برہنگی کے سوا جسم پر لبادہ نہیں ترا خیال ہے تنہائیاں ہیں اور میں ہوں مرے نصیب میں اب وصل کا اعادہ نہیں ملا بھی وہ تو کہاں اس کا نام لکھیں گے کتاب زیست کا کوئی ورق بھی سادہ ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے ملوں گا پھر کبھی خواب و خیال بھی نہیں

    تجھ سے ملوں گا پھر کبھی خواب و خیال بھی نہیں چہرے پہ ان دنوں مگر گرد ملال بھی نہیں آئینہ صفات میں ذات کا عکس کیا ملے اس کی تلاش ہو کہاں جس کی مثال بھی نہیں تیرے ستم کی گفتگو تیرے کرم کی جستجو صبح فراق بھی نہیں شام وصال بھی نہیں مجھ کو طلب سے کیا ملا درد و سراب آگہی میری نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑا سا مسکرا کے نگاہیں ملائیے

    تھوڑا سا مسکرا کے نگاہیں ملائیے مجھ کو مری حیات کا مقصد بتائیے مجھ سے بھی کچھ حضور تعلق تھا آپ کا یوں بے مروتی سے نہ دامن چھڑائیے شاید کسی مقام پہ میں کام آ سکوں مجھ کو بھی ساتھ لیجئے تنہا نہ جائیے گزرے گا اس طرف سے بھی اک دن ہجوم گل ہر چند آپ راہ میں کانٹے بچھائیے ناصرؔ ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت

    وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت وہی عزیز اسی سے محبتیں تھیں بہت وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب ہی نہ تھی بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت پہنچ گئے سر منزل تری تمنا میں اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3