Nasir Kazmi

ناصر کاظمی

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

One of the founders of modern ghazal.Born at Ambala in India, he migrated to Pakistan and wrote extensively on the pain and sufferings of partition.

ناصر کاظمی کی غزل

    تو جب میرے گھر آیا تھا

    تو جب میرے گھر آیا تھا میں اک سپنا دیکھ رہا تھا تیرے بالوں کی خوشبو سے سارا آنگن مہک رہا تھا چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں سانولا مکھڑا لو دیتا تھا تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے تیرا ماتھا بھی جلتا تھا دو روحوں کا پیاسا بادل گرج ...

    مزید پڑھیے

    ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں

    ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں یہاں تک بڑھ گئے آلام ہستی کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں کہاں تک تاب لائے ناتواں دل کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں نگاہ یاس کو نیند آ رہی ہے مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے

    ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے کسے ڈھونڈوگے ان گلیوں میں ناصرؔ چلو اب گھر چلیں دن جا ...

    مزید پڑھیے

    سفر منزل شب یاد نہیں

    سفر منزل شب یاد نہیں لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں اولیں قرب کی سرشاری میں کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول ایک صورت تھی عجب یاد نہیں کیسی ویراں ہے گزر گاہ خیال جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں بھولتے ...

    مزید پڑھیے

    کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

    کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے رات بھر چاند کے ہم راہ پھرا کرتے تھے جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا ...

    مزید پڑھیے

    آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

    آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو ٹوٹے کبھی تو خواب شب و روز کا طلسم اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ...

    مزید پڑھیے

    گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

    گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ ہوئی چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے خیال ...

    مزید پڑھیے

    ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

    ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے کیا جانے کیا رت ...

    مزید پڑھیے

    گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

    گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اور تو کیا رکھا ہے

    دل میں اور تو کیا رکھا ہے تیرا درد چھپا رکھا ہے اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں دل کا دیپ جلا رکھا ہے دھوپ سے چہروں نے دنیا میں کیا اندھیر مچا رکھا ہے اس نگری کے کچھ لوگوں نے دکھ کا نام دوا رکھا ہے وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے بھول بھی جاؤ بیتی باتیں ان باتوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5