Nasir Kazmi

ناصر کاظمی

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

One of the founders of modern ghazal.Born at Ambala in India, he migrated to Pakistan and wrote extensively on the pain and sufferings of partition.

ناصر کاظمی کی غزل

    ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

    ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ اشکوں میں ڈھل گئی تری صورت کبھی ...

    مزید پڑھیے

    کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

    کل جنہیں زندگی تھی راس بہت آج دیکھا انہیں اداس بہت رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا اک رہی ہے زمین گھاس بہت کیوں نہ روؤں تری جدائی میں دن گزارے ہیں تیرے پاس بہت چھاؤں مل جائے دامن گل کی ہے غریبی میں یہ لباس بہت وادئ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ ہے یہاں درد کی اگاس بہت سوکھے پتوں کو دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

    گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ سہمے سہمے سے بیٹھے ہیں راگی اور فن کار بھور بھئے اب ان گلیوں میں کون سنائے جوگ جب تک ہم مصروف رہے یہ دنیا تھی سنسان دن ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا

    تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا یاد آئی وہ پہلی بارش جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے لال صراحی میں سونا تھا چاند کے دل میں جلتا سورج پھول کے سینے میں کانٹا تھا کاغذ کے دل میں چنگاری خس کی زباں پر انگارہ تھا دل کی صورت کا اک پتا تیری ...

    مزید پڑھیے

    پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

    پل پل کانٹا سا چبھتا تھا یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا یہ کانٹے اور تیرا دامن میں اپنا دکھ بھول گیا تھا کتنی باتیں کی تھیں لیکن ایک بات سے جی ڈرتا تھا تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی دل کا رنج تو دل میں رہا تھا کسی پرانے وہم نے شاید تجھ کو پھر بے چین کیا تھا میں بھی مسافر تجھ کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    شہر سنسان ہے کدھر جائیں

    شہر سنسان ہے کدھر جائیں خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں رات کتنی گزر گئی لیکن اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں ان اجالوں کی دھن میں پھرتا ہوں چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں رین اندھیری ہے اور کنارہ دور چاند نکلے تو پار اتر جائیں

    مزید پڑھیے

    سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

    سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا قصۂ شوق سناؤں کس کو رازداری کا زمانا نہ رہا زندگی جس کی تمنا میں کٹی وہ مرے حال سے بیگانہ رہا ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چودیس گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا دن ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کا دکھ گہرا تھا

    تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایا دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھلا تھا تنہائی میں یاد خدا تھی تنہائی میں خوف ...

    مزید پڑھیے

    آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے

    آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے آج تو جیسے ساری دنیا ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے تو ہے اور بے خواب دریچے میں ہوں اور سنسان کلی ہے خیر تجھے تو جانا ہی تھا جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے اب تو آنکھ لگا لے ناصرؔ دیکھ تو کتنی رات گئی ہے

    مزید پڑھیے

    وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

    وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر مرے لیے کوئی شایان التماس نہیں ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں گزر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5