Naim Siddiqi

نعیم صدیقی

  • 1916 - 2002

نعیم صدیقی کی غزل

    پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے

    پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے پیچھے سایہ کے یا برفاب گراں کے آگے دل تو وہ ہے کہ کرے شوخ دلوں کی تسخیر عہد پیری میں بھی ہر پیر و جواں کے آگے ابن آدم کے لئے چاہئے اک عالم نو ماہ و مریخ کے بے روح جہاں کے آگے کیا کوئی راہ نہیں اہل تخیل کے لئے غمزہ و عشوہ و انداز بتاں کے ...

    مزید پڑھیے

    گو موت کے گھاٹ اتر گئے ہم

    گو موت کے گھاٹ اتر گئے ہم پر عشق سا کام کر گئے ہم میخانے سے لے کے تا بہ زنداں تیرے لئے در بہ در گئے ہم پھوٹی جو کوئی کرن خوشی کی تو بعد کے غم سے ڈر گئے ہم تم نے تو سکھا دیا ہمیں صبر تم بگڑے رہے سنور گئے ہم جس موڑ میں رہ گئے ہزاروں اس موڑ سے بھی گزر گئے ہم

    مزید پڑھیے

    کیا میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا

    کیا میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا گلشن کی جنوں انگیز فضا کیا ویسی جنوں انگیز نہیں بلبل نے بغاوت کی لے میں کیا اب سے چہکنا چھوڑ دیا ظلمت کے خداؤ کھل کے کہو کیا نور نے گھٹنے ٹیک دئے سورج نے چمکنا چھوڑ دیا تاروں نے ...

    مزید پڑھیے

    ہم شاد رہے ناشاد رہے

    ہم شاد رہے ناشاد رہے بس آپ ہمیشہ یاد رہے صیاد نشیمن لاکھ اجڑیں پنجرا تو ترا آباد رہے وہ تخت پہ بھی مجبور سے ہیں زنداں میں بھی ہم آزاد رہے تن قید میں ہو تو کیا پروا اے قیدی من آزاد رہے یہ آزادی کیا آزادی جب گھات میں اک صیاد رہے یوں محض کرم بھی ٹھیک نہیں کچھ تھوڑی سی بیداد ...

    مزید پڑھیے

    کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے

    کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے اے کاش تماشا کرنے کو خود تو بھی کنار بام آئے الفاظ نہ تھے آواز نہ تھی نامہ بھی نہ تھا قاصد بھی نہ تھا ایسے بھی کئی پیغام گئے ایسے بھی کئی پیغام آئے شب مے خانے کی محفل میں ارباب جفا کا ذکر چلا چپ سنتے رہے ہم ڈرتے رہے تیرا بھی نہ ان ...

    مزید پڑھیے

    یہ شاخ ہنر اپنی جو گل ریز رہی ہے

    یہ شاخ ہنر اپنی جو گل ریز رہی ہے مجروح تہ خنجر چنگیز رہی ہے دم لو کہ ذرا قافلۂ وقت بھی آ لے یاں گردش پیمانہ بڑی تیز رہی ہے انسانوں کے دکھ سکھ میں برابر رہی شامل یہ طبع جو ظاہر میں کم آمیز رہی ہے اس غمزۂ پنہاں کی حلاوت بھی عطا ہو! جس بن مئے عشرت بھی غم انگیز رہی ہے صد معرکۂ نور ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو حسرت دید کی ہے ان کو تڑپانا پسند (ردیف .. ے)

    ہم کو حسرت دید کی ہے ان کو تڑپانا پسند اپنی خواہش کچھ ہے اور ان کی رضا کچھ اور ہے پہلے دکھ میں کرب تھا اب کرب دیتا ہے مزا ابتدا کچھ اور تھی اور انتہا کچھ اور ہے قید کے دن کٹتے کٹتے ایک دن کٹ جائیں گے پردۂ گردوں میں کیا جانیں کہ کیا کچھ اور ہے وہ بھی اک الجھن میں ہیں اور ہم بھی اک ...

    مزید پڑھیے

    اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں

    اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں اے چشم اشتیاق ترے دن پھرے تو ہیں کچھ اہتمام رونق مے خانہ ہے ضرور ٹھنڈی ہوا چلی تو ہے بادل گھرے تو ہیں لو اب تو آئی منزل جاناں سے بوئے خوش کچھ ٹھوکریں لگی تو ہیں کانٹے چبھے تو ہیں وہ کر کے اپنے چاہنے والوں کا قتل عام اب کچھ پسیجنے تو لگے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی دار و رسن کی بات کرو

    جب بھی دار و رسن کی بات کرو ایک اجلے کفن کی بات کرو چھوڑو اب قصہ ہائے عہد کہن کچھ شراب کہن کی بات کرو کسی مر مر کے جسم کا ہو ذکر نہیں دل کی بدن کی بات کرو اہل عالم کی فکر ہو کب تک اب کچھ اہل وطن کی بات کرو ذکر مہتاب ہو تو کیا ہے ضرور اس کی اک اک کرن کی بات کرو اب سمجھتا ہے کون خار ...

    مزید پڑھیے