Naim Siddiqi

نعیم صدیقی

  • 1916 - 2002

نعیم صدیقی کے تمام مواد

3 مضمون (Articles)

    نظم جو مولانا نعیم صدیقیؒ کی حسرت ناکام تھی

    ڈالر

    یہ نظم مولانا نعیم صدیقیؒ نے ۱۹ ستمبر ۱۹۵۱ء کو اُس وقت رقم کی تھی، جب پہلی بار یہ خبر آئی کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس ڈالر کے لیے ہمارا ایک ڈکٹیٹر اپنی کتاب میں فخر سے لکھتا ہے کہ ہم نے اپنے وطن کے شہری امریکہ کے ہاتھ بیچ کر ڈالر لیے۔ آج بے حساب لوگ پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں بیٹھے امریکہ کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور امریکی ڈالر وصول کر رہے ہیں۔ نظم پر ایک نظر ڈال کر فیصلہ کریں کہ کیا کچھ شاعروں کے وجدان کا قائل ہونا بنتا ہے یا نہیں؟؟؟

    مزید پڑھیے

    سید مودودیؒ : وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا

    سید مودودیؒ

    عالمِ اسلام کے عظیم رہنما، مدبر ، مفکر اور عالمِ دین ، جو 22 ستمبر 1979 کو ہم سے جدا ہو گئے۔ آپ کی دینی و ملی خدمات بے شمار ہیں ، عالمِ کفر ، الحاد ، کمیونزم اور قادیانیت وغیرہم پر آپ کا قلم دو دھاری تلوار سے کم نہیں تھا۔ اللھم اغفر لہ و ارحمہ

    مزید پڑھیے

9 غزل (Ghazal)

    پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے

    پاؤں گردش میں ہیں کتنوں کے مکاں کے آگے پیچھے سایہ کے یا برفاب گراں کے آگے دل تو وہ ہے کہ کرے شوخ دلوں کی تسخیر عہد پیری میں بھی ہر پیر و جواں کے آگے ابن آدم کے لئے چاہئے اک عالم نو ماہ و مریخ کے بے روح جہاں کے آگے کیا کوئی راہ نہیں اہل تخیل کے لئے غمزہ و عشوہ و انداز بتاں کے ...

    مزید پڑھیے

    گو موت کے گھاٹ اتر گئے ہم

    گو موت کے گھاٹ اتر گئے ہم پر عشق سا کام کر گئے ہم میخانے سے لے کے تا بہ زنداں تیرے لئے در بہ در گئے ہم پھوٹی جو کوئی کرن خوشی کی تو بعد کے غم سے ڈر گئے ہم تم نے تو سکھا دیا ہمیں صبر تم بگڑے رہے سنور گئے ہم جس موڑ میں رہ گئے ہزاروں اس موڑ سے بھی گزر گئے ہم

    مزید پڑھیے

    کیا میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا

    کیا میرے قفس میں پڑنے پر کلیوں نے چٹکنا چھوڑ دیا رنگوں نے نکھرنا چھوڑ دیا خوشبو نے مہکنا چھوڑ دیا گلشن کی جنوں انگیز فضا کیا ویسی جنوں انگیز نہیں بلبل نے بغاوت کی لے میں کیا اب سے چہکنا چھوڑ دیا ظلمت کے خداؤ کھل کے کہو کیا نور نے گھٹنے ٹیک دئے سورج نے چمکنا چھوڑ دیا تاروں نے ...

    مزید پڑھیے

    ہم شاد رہے ناشاد رہے

    ہم شاد رہے ناشاد رہے بس آپ ہمیشہ یاد رہے صیاد نشیمن لاکھ اجڑیں پنجرا تو ترا آباد رہے وہ تخت پہ بھی مجبور سے ہیں زنداں میں بھی ہم آزاد رہے تن قید میں ہو تو کیا پروا اے قیدی من آزاد رہے یہ آزادی کیا آزادی جب گھات میں اک صیاد رہے یوں محض کرم بھی ٹھیک نہیں کچھ تھوڑی سی بیداد ...

    مزید پڑھیے

    کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے

    کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے اے کاش تماشا کرنے کو خود تو بھی کنار بام آئے الفاظ نہ تھے آواز نہ تھی نامہ بھی نہ تھا قاصد بھی نہ تھا ایسے بھی کئی پیغام گئے ایسے بھی کئی پیغام آئے شب مے خانے کی محفل میں ارباب جفا کا ذکر چلا چپ سنتے رہے ہم ڈرتے رہے تیرا بھی نہ ان ...

    مزید پڑھیے

تمام