Mohammad Kaleem Ziya

محمد کلیم ضیا

محمد کلیم ضیا کی غزل

    پھول کچھ اور کھلائیں گے تم آؤ تو سہی

    پھول کچھ اور کھلائیں گے تم آؤ تو سہی اپنی پلکوں پہ بٹھائیں گے تم آؤ تو سہی دوست دشمن کی بھی ہو جائے گی پہچان ابھی آئنہ ایسا دکھائیں گے تم آؤ تو سہی اپنی ناکام محبت کی رفاقت کے لئے پیار کے دیپ جلائیں گے تم آؤ تو سہی دشمنی ہم سے کرو بھی تو کوئی بات نہیں دوستی پھر بھی نبھائیں گے تم ...

    مزید پڑھیے

    خار کو پھول بیاباں کو سمندر لکھنا

    خار کو پھول بیاباں کو سمندر لکھنا ہم نے سیکھا نہیں بے کار کے دفتر لکھنا مختصر بھی ہو مکمل بھی ہو خط کا مضموں ہم ہیں مصروف ذرا سوچ سمجھ کر لکھنا تو مرے جسم کی کالک کو چھڑا دے پہلے پھر کوئی نقش مری روح کے اندر لکھنا خود بہ خود اس سے ترا نام ابھر جائے گا کوئی گالی مری دیوار پہ آ کر ...

    مزید پڑھیے

    حادثے گشت میں رہتے ہیں قضا کی صورت

    حادثے گشت میں رہتے ہیں قضا کی صورت کتنی محدود ہے دنیا میں بقا کی صورت قصۂ صبر و رضا اس کو سناؤ جا کر جس نے دیکھی نہ ہو ارباب وفا کی صورت زخم بھر جائیں گے پل بھر میں یقیں ہے مجھ کو وہ جو آ جائیں ذرا دیر دوا کی صورت آ کے بیٹھے بھی نہیں ٹھیک سے اور چل بھی دئے جب بھی آتے ہو تو آئے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس طرح وجود مرا بے حسی میں تھا

    کچھ اس طرح وجود مرا بے حسی میں تھا احساس غم نہ لطف خوشی زندگی میں تھا ابلیس کی ادائیں اڑا لے گئیں اسے شامل جو ایک سجدہ مری بندگی میں تھا چھوڑو خیال ہوش و خرد مجھ کو جام دو اس آگہی سے بڑھ کے مزہ بے خودی میں تھا سورج لٹا رہا تھا متاع حیات نو تیرے بغیر دل کا کنول بیکلی میں تھا میرے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے عجز ذات کا اظہار ہو گیا

    میں اپنے عجز ذات کا اظہار ہو گیا گم کردہ راہ منزل دشوار ہو گیا کل تک تھا ایک پھول مہکتا ہوا مگر ایسی چلیں ہوائیں کہ میں خار ہو گیا بے سود ہو گئی ہیں صلہ رحمیاں تمام خود اپنے حق میں آج میں تلوار ہو گیا چہرہ چھپائے پھرتا ہوں خود اپنے آپ سے میں جو تری نظر میں گنہ گار ہو گیا اب اور ...

    مزید پڑھیے

    کب کسی کے کہے پر چلا آدمی

    کب کسی کے کہے پر چلا آدمی ظلمتوں میں بھٹکتا رہا آدمی ہر طرح کا یہاں پر ملا آدمی ڈھونڈنے پر ملا نہ بھلا آدمی اس کی فہم و فراست تو دیکھو ذرا زندگی کو سمجھتا سزا آدمی اس سے بد تر کوئی لمحہ ہوتا نہیں ہار جاتا ہے جب حوصلہ آدمی آسماں پھٹ گیا اور کھسکی زمیں جب کبھی بن گیا ہے خدا ...

    مزید پڑھیے

    قدم بڑھاتے ہی منزل دکھانے لگتے ہیں

    قدم بڑھاتے ہی منزل دکھانے لگتے ہیں یہ راستے تو بڑے ہی سیانے لگتے ہیں کسی غریب کے گھر میں اگے اگر سورج اندھیرے پورے محلے پہ چھانے لگتے ہیں خزاں میں پیڑ پہ پتے ذرا نہیں ٹکتے بہار آتے ہی رشتے نبھانے لگتے ہیں کسی نظر سے اترنے کو ایک پل ہے بہت نظر میں چڑھنے کو لیکن زمانے لگتے ...

    مزید پڑھیے

    زردار کبھی چاہنے والا نہیں مانگا

    زردار کبھی چاہنے والا نہیں مانگا رائی کی ضرورت پہ ہمالہ نہیں مانگا اکثر مرے چولھے میں رہا برف کا ڈیرا لیکن کسی رشتے سے نوالا نہیں مانگا بر وقت ضرورت نہ ہوئی پوری کسی سے سورج سے اندھیرے میں اجالا نہیں مانگا غالبؔ کے ہنر میرؔ کی فن کاری کے صدقے ناقد سے کسی نے بھی حوالہ نہیں ...

    مزید پڑھیے