ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لیے یعنی ہر بار صورت کاغذ باد ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لیے
عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔
Great Urdu poet occupying a place of pride in world literature. Also one of the most quotable poets having shers for almost all situations of life.
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لیے یعنی ہر بار صورت کاغذ باد ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لیے
گلخن شرر اہتمام بستر ہے آج یعنی تب عشق شعلہ پرور ہے آج ہوں درد ہلاک نامہ بر سے بیمار قارورہ مرا خون کبوتر ہے آج
ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے بھیجے ہیں جو ارمغاں شہ والا نے گن کر دیویں گے ہم دعائیں سو بار فیروزے کی تسبیح کے ہیں یہ دیوانے
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے ثاقب حرکت یہ کی ہے بیجا تم نے حاجی کلو کو دے کے بے وجہ جواب غالبؔ کا پکا دیا کلیجا تم نے
دل سوز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج نیرنگ زمانہ فتنہ پرور ہے آج یک تار نفس میں جوں طناب صباغ ہر پارۂ دل بہ رنگ دیگر ہے آج
آتش بازی ہے جیسے شغل اطفال ہے سوز جگر کا بھی اسی طور کا حال تھا موجد عشق بھی قیامت کوئی لڑکوں کے لیے گیا ہے کیا کھیل نکال
جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری کہتے ہیں وہ مجھ کو رافضی اور دہری دہری کیوں کر ہو جو کہ ہووے صوفی شیعی کیوں کر ہو ماور النہری
ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا ممکن نہیں یک زبان و یک دل ہونا میں تجھ سے اور مجھ سے تو پوشیدہ ہے مفت نگاہ کا مقابل ہونا
اے کاش بتاں کا خنجر سینہ شگاف پہلوے حیات سے گزر جاتا صاف اک تسمہ لگا رہا کہ تا روزے چند رہیے نہ مشقت گدائی سے معاف
دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا اس سے گلہ مند ہوگیا ہے گویا پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا