گڑگانویں کی ہے جتنی رعیت وہ یک قلم
گڑگانویں کی ہے جتنی رعیت وہ یک قلم عاشق ہے اپنے حاکم عادل کے نام کی سویہ نظر فروز قلم دان نذر ہے مسٹر کوان صاحب عالی مقام کی
عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔
Great Urdu poet occupying a place of pride in world literature. Also one of the most quotable poets having shers for almost all situations of life.
گڑگانویں کی ہے جتنی رعیت وہ یک قلم عاشق ہے اپنے حاکم عادل کے نام کی سویہ نظر فروز قلم دان نذر ہے مسٹر کوان صاحب عالی مقام کی
مقام شکر ہے اے ساکنان خطہ خاک رہا ہے زور سے ابر ستارہ بار برس کہاں ہے ساقی مہوش کہاں ہے ابر مطیر بیار لامئے گلنار گوں ببار برس خدا نے تجھ کو عطا کی ہے گوہر افشانی در حضور پر اے ابر بار بار برس ہر ایک قطرے کے ساتھ آئے جو ملک وہ کہے امیر کلب علی خاں جییں ہزار برس فقط ہزار برس پر کچھ ...
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے مہر مکتوب عزیزان گرامی لکھیے حرز بازوے شگرفان خود آرا کہیے مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھیے داغ طرف جگر عاشق شیدا کہیے حاتم دست سلیماں کے ...
سہل تھا مسہل و لے یہ سخت مشکل آپڑی مجھ پہ کیا گزرے گی اتنے روز حاضر بن ہوے تین دن مسہل سے پہلے تین دن مسہل کے بعد تین مسہل تین تبریدیں یہ سب کے دن ہوے
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری کیا کرتے تھے تم تقریر ہم خاموش رہتے تھے بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی جانے دو ہل جاؤ قسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے
ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے شرق سے اخلاص کا ہوا ہے اسی ملک سے ظہور ہے اصل تخم ہند سے اور اس زمین سے پھیلا ہے سب جہان میں یہ میوہ دور دور
مژدہ اے رہروان راہ سخن پایہ سنجان دست گاہ سخن طے کرو راہ شوق زودا زود آن پہنچی ہے منزل مقصود پاس ہے اب سواد اعظم نثر دیکھیے چل کے نظم عالم نثر سب کو اس کا سواد ارزانی چشم بینش ہو جس سے نورانی یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا جلوۂ مدعا نظر آیا ہاں یہی شاہراہ دہلی ہے مطبع بادشاہ دہلی ...
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک وضع میں گو ہوئی دو سر تیغ ہے ذوالفقار ایک ہم سخن و ہم زباں حضرت قاسم و طپاں ایک طیش کا جانشیں درد کا یادگار ایک نقد سخن کے واسطے ایک عیار آگہی شعر کے فن کے واسطے مایۂ اعتبار ایک ایک وفا و مہر میں تازگی بساط دہر لطف و کرم کے باب میں زینت ...
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مشکبو کی ناند جو آئے جام بھر کے پیے اور ہو کے مست سبزے کو روندتا پھرے پھولوں کو جائے پھاند غالبؔ یہ کیا بیاں ہے بجز مدح بادشاہ بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشت خواند بٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں ہے جن کے آگے سیم و زر مہر و ...