میر کے پہلے دیوان کی پہلی غزل
پہنچا جو آپ کو ، تو مَیں پہنچا خدا کے تئیں ؛ معلوم اب ہُوا ، کہ بہت مَیں بھی دور تھا
اردو کے پہلے عظیم شاعر جنہیں ’ خدائے سخن ‘ کہا جاتا ہے
One of the greatest Urdu poets. Known as Khuda-e-Sukhan (God of Poetry)
پہنچا جو آپ کو ، تو مَیں پہنچا خدا کے تئیں ؛ معلوم اب ہُوا ، کہ بہت مَیں بھی دور تھا
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں صورت پذیر ہم بن ہرگز نہیں وے مانے اہل نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں عشق ان کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے ناچیز جانتے ہیں نا بود جانتے ہیں اپنی ہی سیر ...
عام حکم شراب کرتا ہوں محتسب کو کباب کرتا ہوں ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں کس قدر بے حساب کرتا ہوں کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث تشنگی پر عتاب کرتا ہوں سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق اب تئیں آب آب کرتا ہوں جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ ...
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم یار سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا ہم رہروان راہ فنا ہیں برنگ عمر جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے ...
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا آوے جو مصطبہ میں تو سن لو کہ راہ سے واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا میرے ...
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا بخشش نے مجھ کو ...
جرم کی کھو شرمگینی یا رسول اور خاطر کی حزینی یا رسول کھینچوں ہوں نقصان دینی یا رسول تیری رحمت ہے یقینی یا رسول رحمۃ للعالمینی یا رسول ہم شفیع المذنبینی یا رسول لطف تیرا عام ہے کر مرحمت ہے کرم سے تیرے چشم مکرمت مجرم عاجز ہوں کر ٹک تقویت تو ہے صاحب تجھ سے ہے یہ مسئلت رحمۃ ...
مزاج شخص جہاں تھا ترے مرض سے سست ہوا سو فضل الٰہی سے تندرست و چست خبر جو گرم ہے اب تیرے غسل صحت کی دل شکستہ جہاں تھا وہ خودبخود ہے درست رہے جہاں میں بہت توکہ تاجہاں بھی رہے سلامت ہمہ آفاق در سلامت تست
ایک بلی موہنی تھا اس کا نام اس نے میرے گھر کیا آ کر قیام ایک سے دو ہو گئی الفت گزیں کم بہت جانے لگی اٹھ کر کہیں بوریے پر میرے اس کی خواب گاہ دل سے میرے خاص اس کو ایک راہ میں نہ ہوں تو راہ دیکھے کچھ نہ کھائے جان پاوے سن مری آواز پائے بلّیاں ہوتی ہیں اچھی ہر کہیں یہ تماشا سا ہے بلی تو ...
اللہ کیا جگر تھا جفا میں حسین کا جی ہی گیا ندان رضا میں حسین کا اس تشنہ لب کا عرش سے برتر ہے مرتبہ خوں تھا سبیل راہ خدا میں حسین کا
وائے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں جام مے پر گردش آوے اور مے خانہ خراب چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس انصاف کریے کب تئیں مخلص حقیر ہو یک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ فقیر ہو
حال بد میں مرے بتنگ آ کر آپ کو سب میں نیک نام کیا ہو گیا دل مرا تبرک جب درد نے قطعۂ پیام کیا
تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گزری پند گو یوں ہی نہ کر اب خلل اوقات کے بیچ زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں ایک دل غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ
ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے سینہ سپر کریں ہم قطع نظر کرو تم
کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے کیسا کیسا ہمیں کھپایا تونے اول کے سلوک میں کہیں کا نہ رکھا آخر کو ٹھکانے ہی لگایا تونے
گذرا یہ کہ شکوہ و شکایت کیجے یا آگے سخن اور حکایت کیجے خوب اتنی تو مجھ پر اب رعایت کیجے دل میرا مرے تئیں عنایت کیجے
دامن عزلت کا اب لیا ہے میں نے دل مرگ سے آشنا کیا ہے میں نے تھا چشمۂ آب زندگانی نزدیک پر خاک سے اس کو بھر دیا ہے میں نے
افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر جھل ایسی بھی عشق میں کرے ہے کوئی
حسن ظاہر بھی ہے ہمارا دلخواہ محو صورت بھی ہوں میں معنی آگاہ باغ عالم کو چشم کم سے مت دیکھ کیا کیا ہیں رنگ یھاں بھی اللہ اللہ