موت کا گیت
عرش کی آڑ میں انسان بہت کھیل چکا خون انسان سے حیوان بہت کھیل چکا مور بے جاں سے سلیمان بہت کھیل چکا وقت ہے آؤ دو عالم کو دگرگوں کر دیں قلب گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں ظلمت کفر کو ایمان نہیں کہتے ہیں سگ خوں خار کو انسان نہیں کہتے ہیں دشمن جاں کو نگہبان نہیں کہتے ہیں جاگ اٹھنے کو ...