Makhdoom Mohiuddin

مخدومؔ محی الدین

اہم ترقی پسند شاعر، ان کی کچھ غزلیں ’ بازار‘ اور ’ گمن‘ جیسی فلموں کے سبب مقبول

One of the important progressive poet, famous for his ghazals in bollywood films like 'Baazaar' and 'Gaman'.

مخدومؔ محی الدین کی نظم

    انقلاب

    اے جان نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے ہجوم شوق سر رہ گزار کب سے ہے گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے نہ تابناکیٔ رخ ہے نہ کاکلوں کا ہجوم ہے ذرہ ذرہ پریشاں کلی کلی مغموم ہے کل جہاں متعفن ہوائیں سب مسموم گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے رخ حیات پہ کاکل کی ...

    مزید پڑھیے

    جز تری آنکھوں کے

    جز تری آنکھوں کے کن آنکھوں نے لطف کا ہاتھ رکھا درد کی پیشانی پر پیار کی آنکھوں سے آنسو پوچھے نرمیاں لمحۂ وصل کی مانند دل و جاں میں اترتی ہی چلی جاتی ہیں ہجر کی شام ہے ڈھل جائے گی وصل کا لمحہ گریزاں ہے پگھل جائے گا تیرے رخسار کی دہکی ہوئی رنگین شفق اور بھی سرخ ہوئی تیرے سلگے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    جوانی

    بے دار ہوئیں مہر جوانی کی شعاعیں پڑنے لگیں عالم کی اسی سمت نگاہیں خوابیدہ تھے جذبات بدلنے لگے کروٹ روئے شرر طور سے ہٹنے لگا گھونگٹ بھرنے لگے بازو تو ہوئے بند قبا تنگ چڑھنے لگا طفلی پہ جوانی کا نیا رنگ ساغر کی کھنک بن گئی اس شوخ کی آواز بربط کی ہوئی گدگدی یا جاگ اٹھے ساز اعضا میں ...

    مزید پڑھیے

    رات کے بارہ بجے

    رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے گرمی ہے سڑکوں پہ کوئی نہیں بوڑھا درویش بھی جا چکا ہے اس جذامی بھکارن کی گاڑی بھی نظروں سے اوجھل ہے راستہ صاف ہے ہوٹلوں سے نکلتی ہوئی لڑکیاں ہیں نہ لڑکوں کے جھرمٹ منڈیروں پر دل میں نہ دل کا دھڑکنا نہ بھوکی نگاہیں نہ سیٹی قمقمے گردنیں تانے چشم بر براہ ...

    مزید پڑھیے

    بھاگ متی

    پیار سے آنکھ بھر آتی ہے کنول کھلتے ہیں جب کبھی لب پہ ترا نام وفا آتا ہے دشت کی رات میں بارات یہیں سے نکلی راگ کی رنگ کی برسات یہیں سے نکلی انقلابات کی ہر بات یہیں سے نکلی گنگناتی ہوئی ہر رات یہیں سے نکلی دھن کی گھنگھور گھٹائیں ہیں نہ ہن کے بادل سونے چاندی کے گلی کوچے نہ ہیروں کے ...

    مزید پڑھیے

    لمحۂ رخصت

    کچھ سننے کی خواہش کانوں کو کچھ کہنے کا ارماں آنکھوں میں گردن میں حمائل ہونے کی بیتاب تمنا بانہوں میں مشتاق نگاہوں کی زد سے نظروں کا حیا سے جھک جانا اک شوق ہم آغوشی پنہاں ان نیچی بھیگی پلکوں میں شانے پہ پریشاں ہونے کو بے چین سیہ کاکل کی گھٹا وارفتہ نگاہوں سے پیدا ہے ایک ادائے ...

    مزید پڑھیے

    سجدہ

    پھر اسی شوخ کا خیال آیا پھر نظر میں وہ خوش جمال آیا پھر تڑپنے لگا دل مضطر پھر برسنے لگا ہے دیدۂ تر یاد آئیں وہ چاندنی راتیں وہ ہنسی کھیل دل لگی باتیں شب تاریک ہے خموشی ہے کل جہاں محو عیش کوشی ہے لطف سجدوں میں آ رہا ہے مجھے چھپ کے کوئی بلا رہا ہے مجھے چوڑیاں بج رہی ہیں ہاتھوں کی آئی ...

    مزید پڑھیے

    غالبؔ

    تم جو آ جاؤ آج دلی میں خود کو پاؤ گے اجنبی کی طرح تم پھرو گے بھٹکتے رستوں میں ایک بے چہرہ زندگی کی طرح دن ہے دست خسیس کی مانند رات ہے دامن تہی کی طرح پنجۂ زر گری و زر گیری عام ہے رسم رہزنی کی طرح آج ہر میکدے میں ہے کہرام ہر گلی ہے تری گلی کی طرح وہ زباں جس کا نام ہے اردو اٹھ نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    باغی

    رعد ہوں برق ہوں بے چین ہوں پارا ہوں میں خود پرستار، خود آگاہ خود آرا ہوں میں خرمن جور جلا دے وہ شرارا ہوں میں میری فریاد پہ اہل دول انگشت بہ گوش لا، تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے سر پر نخوت ارباب زماں توڑوں گا شور نالہ سے در ارض و سماں توڑوں گا ظلم پرور روش اہل جہاں توڑوں ...

    مزید پڑھیے

    چاند تاروں کا بن

    موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن تشنگی تھی مگر تشنگی میں بھی سرشار تھے پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے منتظر مرد و زن مستیاں ختم، مد ہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن رات کے جگمگاتے دہکتے بدن صبح دم ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4