Makhdoom Mohiuddin

مخدومؔ محی الدین

اہم ترقی پسند شاعر، ان کی کچھ غزلیں ’ بازار‘ اور ’ گمن‘ جیسی فلموں کے سبب مقبول

One of the important progressive poet, famous for his ghazals in bollywood films like 'Baazaar' and 'Gaman'.

مخدومؔ محی الدین کی نظم

    سپاہی

    جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے لاش جلنے کی بو آ رہی ہے زندگی ہے کہ چلا رہی ہے جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے کتنے سہمے ہوئے ہیں نظارے کیسے ڈر ڈر کے چلتے ہیں تارے کیا جوانی کا خوں ہو رہا ہے سرخ ہیں آنچلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    آسمانی لوریاں

    روز روشن جا چکا، ہیں شام کی تیاریاں اڑ رہی ہیں آسماں پر زعفرانی ساڑیاں شام رخصت ہو رہی ہے رات کا منہ چوم کر ہو رہی ہیں چرخ پر تاروں میں کچھ سرگوشیاں جلوے ہیں بیتاب پردے سے نکلنے کے لئے بن سنور کر آ رہی ہیں آسماں کی رانیاں نو عروس شب نے پہنا ہے لباس فاخرہ آسمانی پیرہن میں کہکشانی ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے تارے

    نوائے درد مری کہکشاں میں ڈوب گئی وہ چاند تاروں کی سیل رواں میں ڈوب گئی سمن بران فلک نے شرر کو دیکھ لیا زمین والوں کے دل کو نظر کو دیکھ لیا وہ میری آہ کا شعلہ تھا کوئی تارہ نہ تھا وہ خاکداں کا مسافر تھا ماہ پارہ نہ تھا دلوں میں بیٹھ گیا تیر آرزو بن کر فلک پہ پھیل گیا عشق کا لہو بن ...

    مزید پڑھیے

    آزادیٔ وطن

    کہو ہندوستاں کی جے کہو ہندوستاں کی جے قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ...

    مزید پڑھیے

    رقص

    وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا وہ کام دیو کی کمان جام لے کے آ گیا وہ چاندنی کی نرم نرم آنچ میں تپی ہوئی سمندروں کے جھاگ سے بنی ہوئی جوانیاں ہری ہری روش پہ ہم قدم بھی ہم کلام بھی بدن مہک مہک کے چل کمر لچک لچک کے چل قدم بہک بہک کے چل وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا وہ کام دیو کی ...

    مزید پڑھیے

    وصال

    دھنک ٹوٹ کر سیج بنی جھومر چمکا سناٹے چونکے آدھی رات کی آنکھ کھلی برہ کی آنچ کی نیلی لو نے بنتی ہے لے بنتی ہے شہنائی جلتی روتی تھی اب سر نیوڑھائے لال پپوٹے بند کئے بیٹھی ہے نرم گرم ہاتھوں کی مہندی ایک نیا سنگیت سناتی دل کے کواڑ پہ رک کر کوئی راتوں میں دستک دیتا تھا دل کے کواڑ پہ رک ...

    مزید پڑھیے

    سناٹا

    کوئی دھڑکن نہ کوئی چاپ نہ سنچل نہ کوئی موج نہ ہلچل نہ کسی سانس کی گرمی نہ بدن ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے کوئی پگھلا ہوا موتی کوئی آنسو کوئی دل کچھ بھی نہیں کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر کوئی رخسار تو چمکے کوئی بجلی تو گرے

    مزید پڑھیے

    حویلی

    ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج اک مسلسل گرد میں ڈوبے ہوئے سب بام و در جس طرف دیکھو اندھیرا جس طرف دیکھو کھنڈر مار و کژدم کے ٹھکانے جس کی دیواروں کے چاک اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہول ناک جن میں رہتے ہیں مہاجن جن میں بستے ہیں امیر جن ...

    مزید پڑھیے

    جنگ

    نکلے دہان توپ سے بربادیوں کے راگ باغ جہاں میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ کیوں ٹمٹما رہی ہے یہ پھر شمع زندگی پھر کیوں نگار حق پہ ہیں آثار بیوگی عفریت سیم و کے کلیجے میں کیوں ہے پھانس کیوں رک رہی ہے سینے میں تہذیب نو کی سانس امن و اماں کی نبض چھٹی جا رہی ہے کیوں؟ بالین زیست آج اجل گا ...

    مزید پڑھیے

    خواہشیں

    خواہشیں لال پیلی ہری چادریں اوڑھ کر تھرتھراتی تھرکتی ہوئی جاگ اٹھیں جاگ اٹھی دل کی اندر سبھا دل کی نیلم پری جاگ اٹھی دل کی پکھراج لیتی ہے انگڑائیاں جام میں جام میں تیرے ماتھے کا سایہ گرا گھل گیا چاندنی گھل گئی تیرے ہونٹوں کی لالی تری نرمیاں گھل گئیں رات کی ان کہی ان سنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4