سیماب وشی تشنہ لبی با خبری ہے
سیماب وشی تشنہ لبی با خبری ہے اس دشت میں گر رخت سفر ہے تو یہی ہے اس شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو کم کم ہی سہی نسبت پیمانہ رہی ہے بے صحبت رخسار اندھیرا ہی اندھیرا گو جام وہی مے وہی مے خانہ وہی ہے اس عہد میں بھی دولت کونین کے با وصف ہر گام پہ ان کی جو کمی تھی سو کمی ہے ہر دم ترے ...