Makhdoom Mohiuddin

مخدومؔ محی الدین

اہم ترقی پسند شاعر، ان کی کچھ غزلیں ’ بازار‘ اور ’ گمن‘ جیسی فلموں کے سبب مقبول

One of the important progressive poet, famous for his ghazals in bollywood films like 'Baazaar' and 'Gaman'.

مخدومؔ محی الدین کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    دراز ہے شب غم سوز و ساز ساتھ رہے

    دراز ہے شب غم سوز و ساز ساتھ رہے مسافرو مئے مینا گداز ساتھ رہے قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے یہ کوہ کیا ہے یہ دشت الم فزا کیا ہے جو اک تری نگہ دل‌ نواز ساتھ رہے کوئی رہے نہ رہے ایک آہ اک آنسو بصد خلوص بصد امتیاز ساتھ رہے یہ مے کدہ ہے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

    عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو پیار کے نامہ کو دہراؤ کہ ...

    مزید پڑھیے

    سحر سے رات کی سرگوشیاں بہار کی بات

    سحر سے رات کی سرگوشیاں بہار کی بات جہاں میں عام ہوئی چشم انتظار کی بات دلوں کی تشنگی جتنی دلوں کا غم جتنا اسی قدر ہے زمانے میں حسن یار کی بات جہاں بھی بیٹھے ہیں جس جا بھی رات مے پی ہے انہی کی آنکھوں کے قصے انہی کے پیار کی بات چمن کی آنکھ بھر آئی کلی کا دل دھڑکا لبوں پہ آئی ہے جب ...

    مزید پڑھیے

    اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے

    اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے ایک آنسو جو سر چشم وفا ہوتا ہے اس گزر گاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ عشق جز ترے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے دل کی محراب میں اک شمع جلی تھی سر شام صبح دم ماتم ارباب وفا ہوتا ہے دیپ جلتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی زندگی رنگ گل کا بیاں دوستو

    زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی زندگی رنگ گل کا بیاں دوستو گاہ روتی ہوئی گاہ ہنستی ہوئی میری آنکھیں ہیں افسانہ خواں دوستو ہے اسی کے جمال نظر کا اثر زندگی زندگی ہے سفر ہے سفر سایۂ شاخ گل شاخ گل بن گیا بن گیا ابر ابر رواں دوستو اک مہکتی بہکتی ہوئی رات ہے لڑکھڑاتی نگاہوں کی سوغات ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 قصہ (Latiife)

    تازہ غزل سنانے کی بے چینی

    مخدوم نہ صرف ایک اعلی ٰپایہ کے شاعر، خطیب، انسان دوست سیاسی رہنما تھے ۔بلکہ کسی قدر بلا نوش بھی تھے ۔ ان کی ایک کمزوری یہ تھی کہ جب وہ کوئی تازہ نظم یا غزل کہتے وہ اسے کسی نہ کسی کو ضرور سنانا چاہتے ۔ایک بار ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک نظم کہی‘ کئی جگہ گئے مگر اسے سنانے کو انہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    وقت صبح غروب آفتاب کا نظارہ

    حیدرآباد میں دارالاقامہ کی نئی عمارتیں تعمیر ہوچکی تھیں۔ وارڈن صاحب کا دفتر ہاسٹل کی شاندار عمارت کی اوپری منزل میں تھا۔ شام کا وقت تھا۔ مخدوم بھی کسی کام سے وارڈن صاحب کے دفتر میں بیٹھے تھے ۔ کام کی باتیں ختم ہوئیں ۔ وہ اٹھنے لگے تو وارڈن صاحب کی نظر دریچے سے باہر آسمان پر ...

    مزید پڑھیے

38 نظم (Nazm)

    سپاہی

    جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے لاش جلنے کی بو آ رہی ہے زندگی ہے کہ چلا رہی ہے جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے کتنے سہمے ہوئے ہیں نظارے کیسے ڈر ڈر کے چلتے ہیں تارے کیا جوانی کا خوں ہو رہا ہے سرخ ہیں آنچلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    آسمانی لوریاں

    روز روشن جا چکا، ہیں شام کی تیاریاں اڑ رہی ہیں آسماں پر زعفرانی ساڑیاں شام رخصت ہو رہی ہے رات کا منہ چوم کر ہو رہی ہیں چرخ پر تاروں میں کچھ سرگوشیاں جلوے ہیں بیتاب پردے سے نکلنے کے لئے بن سنور کر آ رہی ہیں آسماں کی رانیاں نو عروس شب نے پہنا ہے لباس فاخرہ آسمانی پیرہن میں کہکشانی ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے تارے

    نوائے درد مری کہکشاں میں ڈوب گئی وہ چاند تاروں کی سیل رواں میں ڈوب گئی سمن بران فلک نے شرر کو دیکھ لیا زمین والوں کے دل کو نظر کو دیکھ لیا وہ میری آہ کا شعلہ تھا کوئی تارہ نہ تھا وہ خاکداں کا مسافر تھا ماہ پارہ نہ تھا دلوں میں بیٹھ گیا تیر آرزو بن کر فلک پہ پھیل گیا عشق کا لہو بن ...

    مزید پڑھیے

    آزادیٔ وطن

    کہو ہندوستاں کی جے کہو ہندوستاں کی جے قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ...

    مزید پڑھیے

    رقص

    وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا وہ کام دیو کی کمان جام لے کے آ گیا وہ چاندنی کی نرم نرم آنچ میں تپی ہوئی سمندروں کے جھاگ سے بنی ہوئی جوانیاں ہری ہری روش پہ ہم قدم بھی ہم کلام بھی بدن مہک مہک کے چل کمر لچک لچک کے چل قدم بہک بہک کے چل وہ روپ رنگ راگ کا پیام لے کے آ گیا وہ کام دیو کی ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 قطعہ (Qita)