نژاد نو
برہنہ سر ہیں برہنہ تن ہیں برہنہ پا ہیں شریر روحیں ضمیر ہستی کی آرزوئیں چٹکتی کلیاں کہ جن سے بوڑھی اداس گلیاں مہک رہی ہیں غریب بچے کہ جو شعاع سحر گہی ہیں ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں وہ منزلیں جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں ترس رہی ہیں انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں حسین ...