Majeed Amjad

مجید امجد

جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding-fathers of modern Urdu poetry.

مجید امجد کی نظم

    برہنہ

    فرنگی جریدوں کے اوراق رنگین ہنستی، لچکتی، دھڑکتی، لکیریں کٹیلے بدن تیغ کی دھار جیسے! لہو رس میں گوندھے ہوئے جسم، ریشم کے انبار جیسے! نگہ جن پہ پھسلے، وہ شانے وہ باہیں مدور اٹھانیں، منور ڈھلانیں، ہر اک نقش میں زیست کی تازگی ہے ہر اک رنگ سے کھولتی آرزوؤں کی آنچ آ رہی ہے! خطوط برہنہ ...

    مزید پڑھیے

    کون دیکھے گا

    جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں انہی دنوں کی تہوں میں ہے کون دیکھے گا اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن انہیں دنوں میں نمویاب کون دیکھے گا یہ ایک سانس جھمیلوں بھری جگوں میں رچی اس اپنی سانس میں ...

    مزید پڑھیے

    بس سٹینڈ پر

    خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی خدا سے کیا گلہ بھائی خدا تو خیر کس نے اس کا عکس نقش پا دیکھا نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا مگر توبہ مری توبہ یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے ...

    مزید پڑھیے

    سپاہی

    تم اس وقت کیا تھے تمہارے محلوں تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا آسائشیں بھی وسیلے بھی اس کبریائی کی تمکنت بھی سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا زندگی کا ہر اک آسرا بھی کڑے بام و در بھی چمن بھی ثمر بھی مگر تم خود اس وقت کیا تھے تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی جب اڑتی ہلاکت کے ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    ایک اجلا سا کانپتا دھبا ذہن کی سطح پر لڑھکتا ہوا نقش، جس میں کبھی سمٹ آئی لاکھ یادوں کی مست انگڑائی داغ جس کی جبین غم پہ کبھی ہو گیا آ کے لرزہ بر اندام کسی بھولے ہوئے حبیب کا نام زخم جس کی تپکتی تہہ سے کبھی رس پڑے دکھتے گھونگھٹ الٹا کے کسی چہرے کے سیکڑوں خاکے عکس ان دیکھا عکس تیرتا ...

    مزید پڑھیے

    بہار

    ہر بار اسی طرح سے فطرت سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے سرسوں کی کلی کی زرد مورت تھاما ہے جسے خم ہوا نے ہر بار اسی طرح سے شاخیں کھلتی ہوئی کونپلیں اٹھائے رستوں کے سلاخچوں سے لگ کر کیا سوچتی ہیں یہ کون جانے ہر بار اسی طرح سے بوندیں رنگوں بھری بدلیوں سے چھن کر آتی ہیں مسافتوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    ایکٹرس کا کنٹریکٹ

    مرا وجود زندگی کا بھید ہے دیکھ یہ ایک ہونٹ کے شعلے پہ برگ گل سے خراش یہ ایک جسم کے کندن میں گدگدی سے گداز یہ ایک روح بھنچے بازوؤں میں کھیلتی لہر! ذرا قریب تو آ دیکھ تیرے سامنے ہیں یہ سرخ رس بھرے لب جن کی اک جھلک کے لیے کبھی قبیلوں کے دل جوشنوں میں دھڑکے تھے جو تو کہے تو یہی ہونٹ سرخ ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    اور پھر اک دن میں اور تم ان اونچی نیچی دیواروں کے جھرمٹ میں اترے جن میں کبھی ہماری روحوں کو زندہ چن دیا گیا تھا اس وقت آنگن آنگن میں ترچھی کرنوں نے دھوپ کے کنگرے سایوں کی قاشوں میں ٹانک دیے تھے دیکھا ہوا سا کوئی سماں پرانا اس دن ہم نے دیکھا یوں لگتا تھا جیسے آسمانوں کی روشنیاں جھک ...

    مزید پڑھیے

    سوکھا تنہا پتا

    اس بیری کی اونچی چوٹی پر وہ سوکھا تنہا پتا جس کی ہستی کا بیری ہے پت جھڑ کی رت کا ہر جھونکا کاش مری یہ قسمت ہوتی کاش میں وہ اک پتا ہوتا ٹوٹ کے جھٹ اس ٹہنی سے گر پڑتا کتنا اچھا ہوتا گر پڑتا اس بیری والے گھر کے آنگن میں گر پڑتا یوں ان پازیبوں والے پاؤں کے دامن میں گر پڑتا جس کو میرے ...

    مزید پڑھیے

    دستک

    کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے جا کے دیکھوں تو کون آیا ہے کون آیا ہے میرے دوارے پر رات آئی کہاں بچارے پر میرے چھپر سے ٹیک کر کاندھا کون استادہ ہے تھکا ماندہ میری کٹیا میں آؤ سستا لو یہ مرا ساغر شکستہ لو میری چھاگل سے گھونٹ پانی پیو اک نئے عزم کی جوانی پیو ٹمٹماتے دیے کی جھلمل میں جوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5