Majeed Amjad

مجید امجد

جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding-fathers of modern Urdu poetry.

مجید امجد کی نظم

    ان لوگوں کے اندر

    ان لوگوں کے اندر جن کے اندر میں بھی ہوں میرے برعکس ایسے بھی ہیں کچھ لوگ جن کی باتوں کے کچھ سچے روپ ان کے حربے ہیں لیکن یہ سچ ان کا نہیں ہوتا یہ سچ اوروں سے چھینا ہوا ہوتا ہے اپنے جھوٹ اور اپنی بدی کو چھپانے کی خاطر وہ اوروں کی اک اک اچھائی کو ہتھیا لیتے ہیں اور پھر اس ہتھیار کو لے کر ...

    مزید پڑھیے

    ساتھی

    پھول کی خوشبو ہنستی آئی میرے بسیرے کو مہکانے میں خوشبو میں خوشبو مجھ میں اس کو میں جانوں مجھ کو وہ جانے مجھ سے چھو کر مجھ میں بس کر اس کی بہاریں اس کے زمانے لاکھوں پھولوں کی مہکاریں رکھتے ہیں گلشن ویرانے مجھ سے الگ ہیں مجھ سے جدا ہیں میں بیگانہ وہ بیگانے ان کو بکھیرا ان کو ...

    مزید پڑھیے

    فرد

    اتنے بڑے نظام میں صرف اک میری ہی نیکی سے کیا ہوتا ہے میں تو اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہوں میز پر اپنی ساری دنیا کاغذ اور قلم اور ٹوٹی پھوٹی نظمیں ساری چیزیں بڑے قرینے سے رکھ دی ہیں دل میں بھری ہوئی ہیں اتنی اچھی اچھی باتیں ان باتوں کا دھیان آتا ہے تو یہ سانس بڑی ہی بیش بہا لگتی ...

    مزید پڑھیے

    آٹوگراف

    کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے کتابچے لیے ہوئے کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر حسین لڑکیاں مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے پر ہراس قافلے گرے بڑھے مڑے بھنور ہجوم کے کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف بیاض آرزو ...

    مزید پڑھیے

    منٹو

    میں نے اس کو دیکھا ہے اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے ''دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے'' دنیا اس کو گھورتی ہے شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال کون ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑوں کے بیٹے

    مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما پہاڑوں کے بیٹے چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل شعاعوں ہواؤں کے زخمی چٹانوں سے گر کر خود اپنے ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ باز گشت

    آج تھی میرے مقدر میں عجب ساعت دید آج جب میری نگاہوں نے پکارا تجھ کو میری تشنہ نگاہوں کی صدا کوئی بھی سن نہ سکا صرف اک تیرے ہی دل تک یہ صدا جاگتی دنیا کے کہرام سے چپ چاپ گزر کر پہنچی صرف اک تو نے پلٹ کر مری جانب دیکھا مجھے تو نے تجھے میں نے دیکھا آج تھی میری نگاہوں کے مقدر میں عجب ...

    مزید پڑھیے

    ریڈنگ روم

    میز پر اخبار کے پھیلے ورق بکھرے بکھرے تیرہ تیرہ چاک چاک ڈھل گئی ہے قالب الفاظ میں سینۂ ہستی کی آہ دردناک پاس ہی دیوار کو ٹیکے ہوئے ریڈیو گرم سخن محو بیاں چیختی ہیں جامۂ آواز میں خون کے چھینٹے لہو کی بوندیاں شام ریڈنگ روم کی مغموم شام چند کان اعلانچی کی بات پر چند آنکھیں سوچ میں ...

    مزید پڑھیے

    راتوں کو

    آنکھوں میں کوئی بس جاتا ہے میٹھی سی ہنسی ہنس جاتا ہے احساس کی لہریں ان تاریک جزیروں سے ٹکراتی ہیں جہاں نغمے پنکھ سنوارتے ہیں سنگین فصیلوں کے گنبد سے پہرے دار پکارتے ہیں کیا کرتا ہے دل ڈرتا ہے دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے ان سونی تنہا راتوں میں دل ڈوب کے گزری ...

    مزید پڑھیے

    بول انمول

    اب یہ مسافت کیسے طے ہو اے دل تو ہی بتا کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے پھر بھی وہی صحرا چیت آیا چیتاونی بھیجی اپنا وچن نبھا پت جھڑ آئی پتر لکھے آ جیون بیت چلا خوشیوں کا مکھ چوم کے دیکھا دنیا مان بھری دکھ وہ سجن کٹھور کہ جس کو روح کرے سجدہ اپنا پیکر اپنا سایہ کالے کوس کٹھن دوری کی جب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5