Majeed Amjad

مجید امجد

جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding-fathers of modern Urdu poetry.

مجید امجد کی نظم

    ریوڑ

    شام کی راکھ میں لتھڑی ہوئی ڈھلوانوں پر ایک ریوڑ کے تھکے قدموں کا مدھم آہنگ جس کی ہر لہر دھندلکوں میں لڑھک جاتی ہے مست چرواہا چراگاہ کی اک چوٹی سے جب اترتا ہے تو زیتون کی لانبی سونٹی کسی جلتی ہوئی بدلی میں اٹک جاتی ہے بکریاں دشت کی مہکار میں گوندھا ہوا دودھ چھاگلوں میں لیے جب ...

    مزید پڑھیے

    ہر جانب ہیں

    ہر جانب ہیں دلوں ضمیروں میں کالے طوفانوں والے لفظ ہزاروں گھنی بھوؤں کے نیچے گھات میں اب تو میرے لبوں تک آ بھی حرف زندہ ہر جانب گلیوں کے دلدلی تالابوں میں بے ستر ہراساں کھڑی ہیں روحیں قدم کھبے ہیں نیلے کیچڑ میں اور ان کی ڈوبتی نظروں میں اک بار ذرا تیری تھی ان کی زندگی ابھی ابھی اک ...

    مزید پڑھیے

    پنواڑی

    بوڑھا پنواڑی اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری آنکھوں میں جیون کی بجھتی اگنی کی چنگاری نام کی اک ہٹی کے اندر بوسیدہ الماری آگے پیتل کے تختے پر اس کی دنیا ساری پان کتھا سگریٹ تمباکو چونا لونگ سپاری عمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری چونا گھولتے چھالیاں کاٹتے کتھ پگھلاتے ...

    مزید پڑھیے

    جاروب کش

    آسمانوں کے تلے سبز و خنک گوشوں میں کوئی ہوگا جسے اک ساعت راحت مل جائے یہ گھڑی تیرے مقدر میں نہیں ہے نہ سہی آسمانوں کے تلے تلخ و سیہ راہوں پر اتنے غم بکھرے پڑے ہیں کہ اگر تو چن لے کوئی اک غم تری قسمت کو بدل سکتا ہے آسمانوں کے تلے تلخ و سیہ راہوں پر تو اگر دیکھے تو خوشیوں کی گریزاں ...

    مزید پڑھیے

    اے ری چڑیا

    جانے اس روزن میں بیٹھے بیٹھے تو کس دھیان میں تیری چڑیا اے ری چڑیا بیٹھے بیٹھے تو نے کتنی لاج سے دیکھا پیتل کے اس اک تل کو جو تیری ناک میں ہے اپنی پت پر یوں مت ریجھ خبر ہے باہر اک اک ڈاین آنکھ کی پتلی تیری تاک میں ہے تجھ کو یوں چمکارنے والوں میں ہے اک جگ تیرا بیری چڑیا اے ری ...

    مزید پڑھیے

    بندا

    کاش میں تیرے بن گوش میں بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈھتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں جوں ہی کرتیں تری نرم ...

    مزید پڑھیے

    صبح جدائی

    اب دھندلی پڑتی جاتی ہے تاریکئ شب میں جاتا ہوں وہ صبح کا تارا ابھرا وہ پو پھوٹی اب میں جاتا ہوں جاتا ہوں اجازت جانے دو وہ دیکھو اجالے چھانے کو ہیں سورج کی سنہری کرنوں کے خاموش بلاوے آنے کو ہیں وہ پھولوں کے گجرے جو تم کل شام پرو کر لائی تھیں وہ کلیاں جن سے تم نے یہ رنگیں سیجیں مہکائی ...

    مزید پڑھیے

    غریب

    ننھی بھولی میلے میلے گالوں والی بے سدھ سی اک بچی تیری جانب دیکھ رہی ہے دیکھ اس کی آنکھیں تیری توجہ کی پیاسی ہیں اس کی نازک بے حس ٹھوڑی کو اپنی انگلی کی سنہری پور سے مس تو کر اور اس سے اتنا تو پوچھ اچھی بلو تو کیوں چپ ہے اور جب وہ منہ پھیر کے اپنی آنکھیں اپنے ہی چہرے پہ جھکا لے تو ہی ...

    مزید پڑھیے

    خودکشی

    ہاں میں نے بھی سنا ہے تمہارے پڑوس میں کل رات ایک حادثۂ قتل ہو گیا ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ اک جام زہر کا دو جیونوں کی ننھی سی نوکا ڈبو گیا کوئی دکھی جوان وطن اپنا چھوڑ کر اپنی سکھی کے ساتھ اک اور دیس کو گیا دنیا کے خارزار میں سو ٹھوکروں کے بعد یوں آخر ان کا قصۂ غم ختم ہو گیا یوں طے ...

    مزید پڑھیے

    ماڈرن لڑکیاں

    سنہری دوپہروں روپہلی رتوں میں سورج مکھی کے شگوفوں کے پاس چناروں سے قد آور ستاروں سے نین زر افشاں بدن زعفرانی لباس حسین گوریاں گنگناتی پھریں مٹکتی پھریں ڈگمگاتی پھریں کڑی دھوپ میں فاش زر سے تراشی ہوئی پنڈلیاں لہکتی پھریں تھرتھراتی پھریں سجل راستوں سے گزر جائیں یہ نگینوں بھرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5