Majeed Amjad

مجید امجد

جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding-fathers of modern Urdu poetry.

مجید امجد کی نظم

    ایک شبیہ

    کچھ دنوں سے قریب دل ہے وہ دن جب اچانک اسی جگہ اک شکل میری آنکھوں میں مسکرائی تھی ایک پل کے لیے تو ایک وہ شکل جانے کیا کچھ تھی جھوٹ بھی سچ بھی شاید اک بھول شاید اک پہچان کچھ دنوں سے تو جان بوجھ کے اب یہ سمجھنے لگا ہوں میں ہی تو ہوں جس کی خاطر یہ عکس ابھرا ہے کچھ دنوں سے تو اب میں ...

    مزید پڑھیے

    اور یہ انساں

    اور یہ انساں ۔۔۔جو مٹی کا اک ذرہ ہے۔۔۔ جو مٹی سے بھی کم تر ہے اپنے لیے ڈھونڈے تو اس کے سارے شرف سچی تمکینوں میں ہیں لیکن کیا یہ تکریمیں ملتی ہیں زر کی چمک سے تہذیبوں کی چھب سے سلطنتوں کی دھج سے نہیں ۔۔۔نہیں تو۔۔۔ پھر کیوں مٹی کے اس ذرے کو سجدہ کیا اک اک طاقت نے کیا اس کی رفعت ہی کی ...

    مزید پڑھیے

    موٹر ڈیلر

    ان کی کنپٹیوں کے نیچے کالی لمبی قلمیں ان کے رخساروں کے بھرے بھرے بھرپور غدودوں تک تھیں، تھوڑے تھوڑے وقفوں سے وہ زرد گلاسوں کو ہونٹوں سے الگ کرتے۔۔۔۔۔ اور پھر دھیمی دھیمی باتیں کرتے اپنی نئی نئی ان داشتاؤں کی جن کے نام اور جن کے نرخ اس دن ہی اخباروں میں چھپے تھے

    مزید پڑھیے

    امروز

    ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے کسی ان سنی دائمی راگنی کی کوئی تان آزردہ آوارہ برباد جو دم بھر کو آ کر مری الجھی الجھی سی سانسوں کے سنگیت میں ڈھل گئی ہے زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دو چار لمحوں کی میعاد طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی ...

    مزید پڑھیے

    جن لفظوں میں

    جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کرنے کا کفارہ بن سکتے ہیں کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں ان کا جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ان ویراں صحنوں تک ہے کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت نا صاحب اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر کر ...

    مزید پڑھیے

    ایکسیڈنٹ

    مجھ سے روز یہی کہتا ہے پکی سڑک پر وہ کالا سا داغ جو کچھ دن پہلے سرخ لہو کا تھا اک چھینٹا چکنا گیلا چمکیلا چمکیلا مٹی اس پہ گری اور میلی سی اک پیڑھی اس پر سے اتری اور پھر سیندوری سا اک خاکہ ابھرا جو اب پکی سڑک پر کالا سا دھبہ ہے پسی ہوئی بجری میں جذب اور جامد ان مٹ مجھ سے روز یہی کہتا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی تو زندگیاں

    کبھی کبھی تو زندگیاں کچھ اتنے وقت میں اپنی مرادیں حاصل کر لیتی ہیں جتنے وقت میں لقمہ پلیٹ سے منہ میں پہنچتا ہے۔۔۔ اور اکثر ایسی مرادوں کی تو پہنچ بھی لقموں تک ہوتی ہے اور جب ایسی منزلیں بارور ہوتی ہیں تو شہر پنپتے ہیں اور گاؤں پھبکتے ہیں۔۔۔ اور تہذیبوں کی منڈیوں میں ہر جانب ...

    مزید پڑھیے

    ایک شام

    ندی کے لرزتے ہوئے پانیوں پر تھرکتی ہوئی شوخ کرنوں نے چنگاریاں گھول دی ہیں تھکی دھوپ نے آ کے لہروں کی پھیلی ہوئی ننگی بانہوں پہ اپنی لٹیں کھول دی ہیں یہ جوئے رواں ہے کہ بہتے ہوئے پھول ہیں جن کی خوشبوئیں گیتوں کی سسکاریاں ہیں یہ پگھلے ہوئے زرد تانبے کی چادر پہ الجھی ہوئی سلوٹیں ...

    مزید پڑھیے

    عورت

    تو پریم مندر کی پاک دیوی تو حسن کی مملکت کی رانی حیات انساں کی قسمتوں پر تری نگاہوں کی حکمرانی جہان الفت تری قلمرو حریم دل تیری راجدھانی بہار فطرت ترے لب لعل گوں کی دوشیزہ مسکراہٹ نظام کونین تیری آنکھوں کے سرخ ڈوروں کی تھرتھراہٹ فروغ صد کائنات تیری جبین سیمیں کی ضو فشانی بھڑکتے ...

    مزید پڑھیے

    جس بھی روح کا

    جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاؤ۔۔۔ نیچے اک منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے ہم سمجھتے تھے گھرتے امڈتے بادلوں کے نیچے جب ٹھنڈی ہوا چلے گی دن بدلیں گے لیکن اب دیکھا ہے گھنے گھنے سایوں کے نیچے زندگیوں کی سلسبیلوں میں ڈھکی ڈھکی جن نالیوں سے پانی آ آ کر گرتا ہے سب زیر زمین نظاموں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5