Majeed Amjad

مجید امجد

جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں نمایاں

One of the founding-fathers of modern Urdu poetry.

مجید امجد کی غزل

    دل سے ہر گزری بات گزری ہے

    دل سے ہر گزری بات گزری ہے کس قیامت کی رات گزری ہے چاندنی نیم وا دریچہ سکوت آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ جن کی دھن میں حیات گزری ہے تمتماتا ہے چہرۂ ایام دل پہ کیا واردات گزری ہے کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج کتنی یادوں کے سات گزری ہے پھر کوئی آس لڑکھڑائی ...

    مزید پڑھیے

    بڑھی جو حد سے تو سارے طلسم توڑ گئی

    بڑھی جو حد سے تو سارے طلسم توڑ گئی وہ خوش دلی جو دلوں کو دلوں سے جوڑ گئی ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک جو سو گئے انہیں بجھتے جگوں میں چھوڑ گئی یہ زندگی کی لگن ہے کہ رت جگوں کی ترنگ جو جاگتے تھے انہی کو یہ دھن جھنجھوڑ گئی وہ ایک ٹیس جسے تیرا نام یاد رہا کبھی کبھی تو مرے دل ...

    مزید پڑھیے

    بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے

    بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے خرید لوں میں یہ نقلی دوا جو تو چاہے یہ زرد پنکھڑیاں جن پر کہ حرف حرف ہوں میں ہوائے شام میں مہکیں ذرا جو تو چاہے تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا جو تو چاہے جب ایک سانس گھسے ساتھ ایک نوٹ پسے نظام زر کی حسیں آسیا جو ...

    مزید پڑھیے

    اک سانس کی مدھم لو تو یہی اک پل تو یہی اک چھن تو یہی

    اک سانس کی مدھم لو تو یہی اک پل تو یہی اک چھن تو یہی تج دو کہ برت لو دل تو یہی چن لو کہ گنوا دو دن تو یہی لرزاں ہے لہو کی خلیجوں میں پیچاں ہے بدن کی نسیجوں میں اک بجھتے ہوئے شعلے کا سفر کچھ دن ہو اگر کچھ دن تو یہی بل کھائے دکھے نظروں سے رسے سانسوں میں بہے سوچوں میں جلے بجھتے ہوئے اس ...

    مزید پڑھیے

    کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا

    کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا اک تنکا آشیانہ اک راگنی اثاثہ اک موسم بہاراں مہمان دو گھڑی کا آخر کوئی کنارا اس سیل بے کراں کا آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا میری سیاہ شب نے اک عمر آرزو کی لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا شاید ادھر سے ...

    مزید پڑھیے

    جنون عشق کی رسم عجیب کیا کہنا

    جنون عشق کی رسم عجیب کیا کہنا میں ان سے دور وہ میرے قریب کیا کہنا یہ تیرگیٔ مسلسل میں ایک وقفۂ نور یہ زندگی کا طلسم عجیب کیا کہنا جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمن برق الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا ہجوم رنگ فراواں سہی مگر پھر بھی بہار نوحۂ صد عندلیب کیا کہنا ہزار قافلۂ زندگی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4