دل پہ لگتے ہیں سیکڑوں نشتر
دل پہ لگتے ہیں سیکڑوں نشتر روح میں بے کلی سی پاتا ہوں یاد آتی ہے جب تری اے دوست جانے کیوں خود کو بھول جاتا ہوں
ڈی ٹی سی ٹریفک انسپکٹر، غزلوں اور قطعات کے لیے مشہور
DTC traffic inspector, Known for his Ghazals and Qitaat
دل پہ لگتے ہیں سیکڑوں نشتر روح میں بے کلی سی پاتا ہوں یاد آتی ہے جب تری اے دوست جانے کیوں خود کو بھول جاتا ہوں
آرزو ہے کہ اب مری ہستی بحر الفت میں غرق ہو جائے بے نیاز غم جہاں ہو کر تیری رنگینیوں میں کھو جائے
پرفشاں ہے تھکا تھکا سا خیال بے کراں وسعتوں کے گھیرے میں جیسے اک فاختہ ہو گرم سفر شام کے ملگجے اندھیرے میں
اور کچھ دیر ابھی ٹھہر جاؤ گرچہ نور سحر جھلکتا ہے یوں تو بچھڑے ہو بارہا لیکن جانے کیوں آج دل دھڑکتا ہے
تیری فطرت سکوں پسندی ہے شور طوفاں سے بد حواس نہ ہو کہہ رہا ہے سکوت ساحل کا اے غم زندگی اداس نہ ہو
پھر کسی بات کا خیال آیا اک حسیں رات کا خیال آیا جس نے سرشار کر دیا دل کو اس ملاقات کا خیال آیا
نا مرادی کے تند طوفاں میں مل گئے آج کچھ سہارے سے ان کے جلووں میں کھو گئیں نظریں کشتیاں جا لگیں کنارے سے
شوق و ارماں کی بے قراری کو جس نظر سے سکون ہوتا ہے بعض اوقات اس نظر سے ہی آرزوؤں کا خون ہوتا ہے
ایک مدت ستم اٹھانے پر جب نظر کامیاب ہوتی ہے حسن رنگیں کی وہ پشیمانی آپ اپنا جواب ہوتی ہے
حال دل تم سے آج کہتا ہوں زخم کھاتا ہوں درد سہتا ہوں موت سے ہمکنار ہو کر بھی زندگی کے قریب رہتا ہوں