Khalid Mahmood

خالد محمود

خالد محمود کی غزل

    آنکھوں میں دھوپ دل میں حرارت لہو کی تھی

    آنکھوں میں دھوپ دل میں حرارت لہو کی تھی آتش جوان تھا تو قیامت لہو کی تھی زخمی ہوا بدن تو وطن یاد آ گیا اپنی گرہ میں ایک روایت لہو کی تھی خنجر چلا کے مجھ پہ بہت غم زدہ ہوا بھائی کے ہر سلوک میں شدت لہو کی تھی کوہ گراں کے سامنے شیشے کی کیا بساط عہد جنوں میں ساری شرارت لہو کی ...

    مزید پڑھیے

    خطا گیا جو نشانہ کماں بدلتا ہے

    خطا گیا جو نشانہ کماں بدلتا ہے نہیں تمیز رہائش مکاں بدلتا ہے کہانی یہ تھی کہ سب ساتھ مل کے رہتے ہیں پھر اس کے بعد اچانک سماں بدلتا ہے ہم اس کی راہ میں آنکھیں بچھا کے دیکھ چکے مگر وہ جان کا دشمن کہاں بدلتا ہے امیر شہر تنوع پسند ہے خالدؔ لباس نو کے مطابق زباں بدلتا ہے

    مزید پڑھیے

    جہاں دار پہ وار چلنے لگا

    جہاں دار پہ وار چلنے لگا غلاموں کا دربار چلنے لگا ازل سے کسی شے میں گردش نہ تھی چلا میں تو سنسار چلنے لگا خدا رکھے امریکہ و روس کو میاں اپنا اخبار چلنے لگا تبسم تکلم جواں ہو گئے مبارک ہو گھر بار چلنے لگا ابھی دھوپ خالدؔ پہ آئی نہ تھی کہ دیوار دیوار چلنے لگا

    مزید پڑھیے

    وقت قیام دست قضا نے نہیں دیا

    وقت قیام دست قضا نے نہیں دیا چلنے لگے تو ساتھ ہوا نے نہیں دیا پہلے ہی مرحلے میں قلم ہو کے رہ گئے دست ہنر کو ہاتھ دکھانے نہیں دیا گرنا تو کیا برا تھا مگر اس کو کیا کہیں جو گر گیا تو اٹھنے اٹھانے نہیں دیا اب ان کی کج روی سے شکایات ہیں ہمیں ہم نے ہی ان کو راہ پہ آنے نہیں دیا دو چار ...

    مزید پڑھیے

    شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی

    شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی آنکھیں دکھا رہا ہے برابر کا آدمی سورج ستارے کوہ و سمندر فلک زمیں سب ایک کر چکا ہے یہ گز بھر کا آدمی آواز آئی پیچھے پلٹ کر تو دیکھیے پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا آدمی اس گھر کا ٹیلیفون ابھی جاگ جائے گا صاحب کو لے کے چل دیا دفتر کا آدمی ذرے سے کم ...

    مزید پڑھیے

    ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا

    ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا جانے کس وحشت میں گھر کا رستہ پیچھے چھوٹ گیا بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے پھر وہ آگے دوڑ گئے میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا عہد جوانی رو رو کاٹا میرؔ میاں سا حال ہوا لیکن ان کے آگے اپنا قصہ پیچھے چھوٹ گیا پیچھے مڑ کر دیکھے گا ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک فیصلہ اس نے بہتر کیا

    ہر اک فیصلہ اس نے بہتر کیا مجھے آنکھ دی تم کو منظر کیا دل خوں چکیدہ منور کیا تو آنکھوں کا صحرا سمندر کیا لکیروں کو روشن ستارے دیے ستاروں کو اپنا مقدر کیا وہیں ڈوبنے کا یقیں آ گیا جہاں اس نے ہم کو شناور کیا اجالا نفی ہے جب اس نے کہا اندھیرے میں تھے ہم نے باور کیا

    مزید پڑھیے

    جھپٹتے ہیں جھپٹنے کے لیے پرواز کرتے ہیں

    جھپٹتے ہیں جھپٹنے کے لیے پرواز کرتے ہیں کبوتر بھی وہی کرنے لگے جو باز کرتے ہیں وہی قصے وہی باتیں کہ جو غماز کرتے ہیں ترے ہم راز کرتے ہیں مرے دم ساز کرتے ہیں بصد حیلے بہانے ظلم کا در باز کرتے ہیں وہی جاں باز جن پر ہر گھڑی ہم ناز کرتے ہیں زیادہ دیکھتے ہیں جب وہ آنکھیں پھیر لیتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2