زندگانی کے حسیں لمحے خوشی کے وقفے
زندگانی کے حسیں لمحے خوشی کے وقفے یوں اچانک مرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں جس طرح تتلی کے رنگین سبک نازک پر دوڑتے بچوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں
اردو شاعر، فارسی اور سنسکرت کے عالم، آزادی کی جدوجہد میں شامل رہے
Known for his role in Independence struggle, Urdu academics and literature
زندگانی کے حسیں لمحے خوشی کے وقفے یوں اچانک مرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں جس طرح تتلی کے رنگین سبک نازک پر دوڑتے بچوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں
ہنگامۂ ہستی سے اک ساتھ گزر جائیں خوشیوں میں بہم دونوں اور غم میں بہم دونوں جس طرح کہ برگ گل رہتے ہیں صدا یکجا شعلوں میں بہم دونوں شبنم میں بہم دونوں
تبسم ترا خوب سے خوب تر ہے کہ ساتھ اس کے تر تیری چشم حسیں ہے سحر میں نہیں جیسے کہ دل فریبی گہر باری شبنم کی جب تک نہیں ہے
ایسے دائم تو رہین سحر و شام نہیں سر خوشی بھی مری محتاج مئے و جام نہیں دل ہی خود میرا مسرت کا ہے اک سر چشمہ جاں کے دیدار میرا ذوق در و بام نہیں
پردۂ ماضی پہ صورت جو کوئی ابھری ہے ذہن میں گھوم گئے ہیں مرے افسانے کئی ہوں میں حیران یہ کیوں کر نہ کھلا راز اب تک ہے قریں دل کے بظاہر جو تھے بیگانے کئی
یہیں سے گزرے ہیں کچھ قافلے بہاروں کے یہیں پہ گونجے ہیں کچھ نغمے مہ پاروں کے مگر ہے آج اسی دل میں ایسا سناٹا چراغ بجھ گئے ہوں جیسے رہ گزاروں کے
پیار کمزور ہو تو ہجر میں مٹ جاتا ہے اور دیوانگئ عشق چمک اٹھتی ہے جس طرح تیز جب آندھی کے ہیں آتے جھونکے بجھتی ہے شمع مگر آگ بھڑک اٹھتی ہے
زندگی کے روز و شب سے ہو نہیں سکتا شمار سانس کی رفتار سے ہوتی نہیں یہ آشکار صرف دل سینے میں دھڑکے ہی نہیں رقصاں بھی ہو کیا ہوا بے کیف لمبی عمر دی تو نے گزار
مری شبیہ ہے مسرور و شادماں اب بھی مرا مذاق اڑاتی ہے بے گماں اب بھی وہی ہے دل کشی اب بھی وہی ہے رعنائی شگفتہ لب ہیں تبسم میں گل فشاں اب بھی
دل میں یادوں کے دریچے جو کبھی کھلتے ہیں کوئی چپکے سے مرے دل میں چلا آتا ہے ہے وہی شوخی وہی لب پہ تبسم اس کا دل پہ اک بار وہی نشہ سا چھا جاتا ہے