خوب ہے اک شاعر شیریں سخن
خوب ہے اک شاعر شیریں سخن خوب ہے فن کار کا بھی علم و فن خوب تر وہ شخص ہے جو لا سکا غم زدوں میں زندگی کی ایک کرن
اردو شاعر، فارسی اور سنسکرت کے عالم، آزادی کی جدوجہد میں شامل رہے
Known for his role in Independence struggle, Urdu academics and literature
خوب ہے اک شاعر شیریں سخن خوب ہے فن کار کا بھی علم و فن خوب تر وہ شخص ہے جو لا سکا غم زدوں میں زندگی کی ایک کرن
حسین کتنی ہے دنیائے رنگ و بو اپنی مگر نہیں ہے اسے احتیاج لفظ و بیاں ہے کارخانے میں مصروف کار گرچہ کوئی مگر نہ پاؤں کی آہٹ نہ ہے صدائے زباں
قصر امیدوں کے کچھ ہم نے بنائے تھے کبھی لمحے عشرت کے بھی کچھ ہم نے چرائے تھے کبھی دل کے تاروں پہ ہے اب یاد کی پیہم ضربیں کھو گئے گیت کہاں ہم نے جو گائے تھے کبھی
شباب جا چکا لیکن خمار باقی ہے بھری خزاں میں بھی لطف بہار باقی ہے جوان ہے دل زندہ ابھی تو پہلو میں جہاں میں عشرت لیل و نہار باقی ہے
کیوں کر بیان حسن ہو کیوں کر غزل کہیں گھائل تری نگاہ کے اے جاں کہاں ہیں ہم وہ دل کہاں جو ڈھونڈھتا پھرتا تھا تیر کو گویا کہ ایک اتری ہوئی سی کماں ہیں ہم
دل میں یادوں کے کوئی دیپ جلایا نہ کرے کوئی خوابوں میں مجھے آ کے ستایا نہ کرے حال کی تلخیاں کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہیں قصۂ ماضی کوئی اب تو سنایا نہ کرے
ساز پر مشق کر کے ساز نواز فن میں پاتا ہے پختگی جیسے سیکھ لیتا بشر ہے جینا بھی بڑھتی جاتی ہے زندگی جیسے
لب پہ ہنستے ہوئے بچوں کے نظر آئے ہیں دیدۂ تر کے بھی پردے میں تمہیں دیکھا ہے دل کی دھڑکن میں تمہاری ہی صدا آئی ہے نالۂ نیم شبی میں بھی تمہیں پایا ہے
گری ہے برف چمکتے سیاہ بالوں پر بلا کی زردی ہے سرخ و سفید گالوں پر بجھی ہے آگ جو چہرے کی جگمگاتی تھی پڑی ہے اوس جوانی کے ماہ سالوں پر
خزاں کے بعد تو ہر سال یوں بہار آئی گئی جو رات تو پھر صبح بار بار آئی جوں ہی شباب نے اک بار پھیر لیں نظریں پلٹ کے حسن ملاحت نہ ایک بار آئی