علامہ اقبال کی شاعری میں اسلامی انقلاب کا ذکر کیسے ملتا ہے؟
علامہ اقبال مستقبل پر نظر رکھنے والے شاعر ہیں۔احیائے اسلام اور امت مسلمہ کا دنیا میں دوبارہ عروج اقبال کی شاعری کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ۔
اقبال کے شعری موضوعات
iqbal-k-sheri-mozouat
علامہ اقبال مستقبل پر نظر رکھنے والے شاعر ہیں۔احیائے اسلام اور امت مسلمہ کا دنیا میں دوبارہ عروج اقبال کی شاعری کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ۔
اقبال کے نزدیک انقلاب یا تبدیلی کے لیے جہد مسلسل ضروری ہے۔ اقبال کے ہاں انقلاب محض مادی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوتا، اس کے ذہنوں اور دلوں کو بھی بدلنا ضروری ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے میں حُسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں؟ کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں؟ شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی سکھایا اس نےمجھ کو مست بے جام و سبور ہنا سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی نکل کے حلقہ حد نظر سے دور گئی جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی ابد کے بحر میں پیدا یونہی نہاں ہے یونہی
علامہ اقبالؒ کا ایک اقتصادی نظریہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ملک کی چیزوں اور مصنوعات کو فروغ دیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمیں دوسری قوموں کا محتاج ہونا پڑے گا۔ دوسرے ملکوں کا دست نگر اور مقروض نہیں ہونا چاہیے۔یہ اقتصادی غلامی ملکی سالمیت کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔
مسلمان نوجوانوں کے لیے وہ خاص دعا کرتے تھے۔وہ ان شاہیں بچون کو دوبارہ بال وپر دینے اور ان کے اندر اپنا نور بصیرت عام دیکھنے کی دعا کرتے تھے۔وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان نو جوانوں کے اندر ان کا سوز جگر ،ان کا عشق اور ان کی نظر پیدا کردے۔وہ ساری عمر اپنے نالہ نیم بشی کا نیاز،اپنی امنگیں اور اپنی جستجوئیں اپنے قافلے میں لٹانے اور اس متاع گراں بہا کو یوں ٹھکانے لگانے کی دعائیں کرتے رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جس دور میں علامہ اقبال مسلمانان برصغیر کو مغرب کے لائے نظام سرمایہ داری کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے بیدار کررہے تھے، دنیا میں سرمایہ داری نظام کے متبادل کے طور پر اشتراکی خیالات اور نظریات کی ترویج بھی ہورہی تھی۔ اقبال کی شاعری میں کمیونزم، سوشلزم اور اشتراکیت کا تذکرہ کس انداز سے کیا گیا ہے ، اقبال کے ان اشعار میں دیکھیے۔
اقبال کی شاعری اسلام کے پیغام پر مشتمل ہے۔ اقبال کی نظموں اور غزلوں میں اسلام، مسلمانوں، اور امت مسلمہ کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ آئیے علامہ اقبال کے چند ایسے خوب صورت اشعار پڑھتے ہیں جن میں اسلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
آزادی کی خوب صورت اور گراں قدر حیثیت کا ادراک علامہ کو بھی خوب تھا۔انہوں نے جہاں مسلمانان ہند کی آزادی کا خواب پاکستان کی صورت میں دیکھا وہیں اپنے اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو آزادی کے حقیقی شعور سے بھی آگاہ کیا۔
بانگ ِدرا 1۔دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا 2۔ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا مرغ دل ، دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا؟ 3۔در بیا بان طلب،پیوستہ می کوشیم ما موج بحریم،شکست خویش برد وشیم ما
علامہ اقبال کے ہاں ادب اور فن کی اپنی اہمیت ہے، علم و ادب، ہنر اور فن کو علامہ انسانیت کا لازمی خاصہ تصور کرتے ہیں۔ ادب لطیف اور اس سے متعلق علامہ اقبال کے اشعار دیکھیے۔