جاتے سال کی آخری نظم: سنو تم لوٹ آؤ نا
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
شاعر، نثر نگار
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
شاید اسی حوالے سے تیسری صدی عیسوی کے عظیم نقاد اور فلسفی ، لان جائنس نے کہا تھا کہ کسی زندہ انسان، بالخصوص فن کار یا شاعر کی پزیرائی یا تسلیمِ عظمت کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ، اصل عظیم فن کار ، تخلیق کاراور در حقیقت لائقِ تحسین وہ ہے کہ جس کی موت کے بعد بھی اس کی عظمت کو تسلیم کیا جائے۔
اب یہاں ایڈیٹر صاحبان اور مالکان یہ رونا روتے ہیں کہ عوام یہی کچھ پڑھتے ہیں ، یعنی قارئین کے پر زور اصرار پر میگزینز، ڈائجسٹ، اخبارات، ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس نے نام ور ادا کارہ کے اخلاق باختہ تصاویر نشر کیے ہیں اور پھر دس بارہ اسکینڈلز بھی لگائے ہیں ، اور خدا نے چاہا تو یوں ہی ان کے قارئین و ناظرین کی تعداد میں برکت پڑتی رہے گی۔
ڈھلتی عمر کے خالی ساغر ؛ شور مچاتا روح کا ساگر
چلو اب اور کوئی کام کر لیں ؛ مَحَبّت عام ہوتی جا رہی ہے
یعنی اے محبت کرنے والو؟ جس کو تم پاکیزہ نہ رکھ سکو وہ محبت کیوں کر ہو سکتی ہے؟ جو تمہاری نظر کو باندھ نہ دے وہ کیسی گرفتاری ہے ؟ وہ کیسی بادشاہی ہے جو اپنی سرحدوں پر پہرہ نہ دے ؟ ہم نے تو سنا تھا کہ سچی محبت انسان کو غصِ بصر سے نوازتی ہے!!! یعنی نظروں کو جھکنے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ ایک رخ ہو نے اور ایک ہی کا ہو رہنے کا گر سکھاتی ہے ۔ ہر منظر کو نظر انداز کرنے میں مشّاق کرتی ہے۔ یہ کیا محبت ہوئی کہ ہر منظر پر ہی جان نکلتی ہو!!! وہ کون سی محبت ہے جو نفع و نقصان کی فکروں میں مبتلا ہو !!!
شہرِ پا بستہ کی رہائی کو ؛ نعرہِ انقلاب کافی ہے؟
چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں ۔ اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا کوئی فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ ؛ دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت ؛ تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
مَیں شہر آرزو سے جا رہا تھا ؛ جب ؛ مجھے میرے شکستہ قافلے کی آبرو نے ؛ جاں بہ لب ہو کر پکارا
کسی کے دامنِ صد چاک اور اِک دوسرے کے ساتھ سے ؛ محروم ہوتے ، چُھوٹتے ، ؛ ہاتھوں سے ہاتھوں میں ؛ بہت بُھولے ہُوئے رِشتوں ؛ کبھی بِسرے سے ناطوں میں