جاتے سال کی آخری نظم: سنو تم لوٹ آؤ نا
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
شاعر، نثر نگار
سنو مَیں مسکراتا ہوں ؛ سو تم بھی مسکراؤ نا ؛ سنو ، تم لوٹ آؤ نا
شاید اسی حوالے سے تیسری صدی عیسوی کے عظیم نقاد اور فلسفی ، لان جائنس نے کہا تھا کہ کسی زندہ انسان، بالخصوص فن کار یا شاعر کی پزیرائی یا تسلیمِ عظمت کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ، اصل عظیم فن کار ، تخلیق کاراور در حقیقت لائقِ تحسین وہ ہے کہ جس کی موت کے بعد بھی اس کی عظمت کو تسلیم کیا جائے۔
اب یہاں ایڈیٹر صاحبان اور مالکان یہ رونا روتے ہیں کہ عوام یہی کچھ پڑھتے ہیں ، یعنی قارئین کے پر زور اصرار پر میگزینز، ڈائجسٹ، اخبارات، ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس نے نام ور ادا کارہ کے اخلاق باختہ تصاویر نشر کیے ہیں اور پھر دس بارہ اسکینڈلز بھی لگائے ہیں ، اور خدا نے چاہا تو یوں ہی ان کے قارئین و ناظرین کی تعداد میں برکت پڑتی رہے گی۔
ڈھلتی عمر کے خالی ساغر ؛ شور مچاتا روح کا ساگر
چلو اب اور کوئی کام کر لیں ؛ مَحَبّت عام ہوتی جا رہی ہے