Hammad Niyazi

حماد نیازی

حماد نیازی کی غزل

    بھلا دیا بھی اگر جائے سرسری کیا جائے

    بھلا دیا بھی اگر جائے سرسری کیا جائے مطالعہ مری وحشت کا لازمی کیا جائے ہم ایسے لوگ جو آئندہ و گزشتہ ہیں ہمارے عہد کو موجود سے تہی کیا جائے خبر ملی ہے کہ اس خوش خبر کی آمد ہے سو اہتمام سخن آج ملتوی کیا جائے ہمیں اب اپنے نئے راستے بنانے ہیں جو کام کل ہمیں کرنا ہے وہ ابھی کیا ...

    مزید پڑھیے

    یقین کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری

    یقیں کی سلطنت تھی اور سلطانی ہماری دمکتی تھی دعا کی لو سے پیشانی ہماری مہکتا تھا گھنے پیڑوں سے ویرانہ ہمارا جہان آب و گل پر تھی نگہبانی ہماری ہمارے جسم کے ٹکڑے ہوئے روندے گئے ہم مگر زندہ رہی آنکھوں میں حیرانی ہماری ہم اس خاطر تری تصویر کا حصہ نہیں تھے ترے منظر میں آ جائے نہ ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب ہو کے بے قرار آیا

    بے سبب ہو کے بے قرار آیا میرے پیچھے مرا غبار آیا چند یادوں کا شور تھا مجھ میں میں اسے قبر میں اتار آیا اس کو دیکھا اور اس کے بعد مجھے اپنی حیرت پہ اعتبار آیا بھول بیٹھا ہے رنگ گل مرا دل پرتو گل پہ اتنا پیار آیا ایک دنیا کو چاہتا تھا وہ ایک دنیا میں اس پہ وار آیا سانس لیتی تھی ...

    مزید پڑھیے

    دل کی یاد دہانی سے

    دل کی یاد دہانی سے آنکھ کھلی حیرانی سے رنگ ہیں سارے مٹی کے بے رنگے اس پانی سے حرف نگاری سیکھی ہے کمرے کی ویرانی سے پیڑ اجڑتے جاتے ہیں شاخوں کی نادانی سے داغ گریہ آنکھوں کا کب دھلتا ہے پانی سے ہار دیا ہے عجلت میں خود کو کس آسانی سے خوف آتا ہے آنکھوں کو بھید بھری عریانی ...

    مزید پڑھیے

    صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں

    صحن آئندہ کو امکان سے دھوئے جائیں بانجھ ہے قریۂ جاں آئیے روئے جائیں اس سحر زادی کی پیشانی کو چومیں جھومیں خود میں خورشید بنیں شب میں پروئے جائیں گھڑیاں کاندھوں پہ رکھے یہ مرے پیڑ سے لوگ صبح سے شام تلک دھوپ کو ڈھوئے جائیں خواب دیرینہ کا منظر بھی عجب منظر ہے ہم تری گود میں ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں

    ہمارے بس میں کیا ہے اور ہمارے بس میں کیا نہیں جہان ہست و بود میں کسی پہ کچھ کھلا نہیں حضور خواب دیر تک کھڑا رہا سویر تک نشیب قلب و چشم سے گزر ترا ہوا نہیں نظر میں اک چراغ تھا بدن میں ایک باغ تھا چراغ و باغ ہو چکے کوئی رہا رہا نہیں اجڑ گئیں حویلیاں چلی گئیں سہیلیاں دلا تری قبیل سے ...

    مزید پڑھیے

    گلی کا منظر بدل رہا تھا

    گلی کا منظر بدل رہا تھا قدیم سورج نکل رہا تھا ستارے حیران ہو رہے تھے چراغ مٹی میں جل رہا تھا دکھائی دینے لگی تھی خوشبو میں پھول آنکھوں پہ مل رہا تھا گھڑے میں تسبیح کرتا پانی وضو کی خاطر اچھل رہا تھا شفیق پوروں کا لمس پا کر بدن صحیفے میں ڈھل رہا تھا دعائیں کھڑکی سے جھانکتی ...

    مزید پڑھیے

    حجرہ خواب سے باہر نکلا

    حجرہ خواب سے باہر نکلا کون یہ میرے برابر نکلا پھڑپھڑایا مرے باہر کوئی اور پرندہ مرے اندر نکلا آنکھ سے اشک نکل آئے ہیں ریت سے جیسے سمندر نکلا ہجر کو خواب میں دیکھا اک دن اور پھر خواب مقدر نکلا میرے پیچھے مری وحشت بھاگی میں جو دیوار گرا کر نکلا آنکھ بینائی گنوا بیٹھی تو تیری ...

    مزید پڑھیے

    وہ نگہ جب مجھے پکارتی تھی

    وہ نگہ جب مجھے پکارتی تھی دل کی حیرانیاں ابھارتی تھی اپنی نادیدہ انگلیوں کے ساتھ میرے بالوں کو وہ سنوارتی تھی روز میں اس کو جیت جاتا تھا اور وہ روز خود کو ہارتی تھی پتیاں مسکرانے لگتی تھیں شاخ سے پھول جب اتارتی تھی جن دنوں میں اسے پکارتا تھا ایک دنیا مجھے پکارتی تھی صحن میں ...

    مزید پڑھیے

    جب منڈیروں پہ پرندوں کی کمک جاری تھی

    جب منڈیروں پہ پرندوں کی کمک جاری تھی لفظ تھے لفظوں میں احساس کی سرداری تھی اب جو لوٹا ہوں تو پہچان نہیں ہوتی ہے کہاں دیوار تھی دیوار میں الماری تھی وہ حویلی بھی سہیلی تھی پہیلی جیسی جس کی اینٹوں میں مرے خواب تھے خودداری تھی آخری بار میں کب اس سے ملا یاد نہیں بس یہی یاد ہے اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2