ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے
ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے منظر وہی ہیں صرف ستم گر بدل گئے چھوڑو تم انقلاب زمانہ کا تذکرہ وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے
ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے منظر وہی ہیں صرف ستم گر بدل گئے چھوڑو تم انقلاب زمانہ کا تذکرہ وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے
سورج کے خداؤں کی یہ کور نگاہی ہے محلوں میں اجالا ہے کٹیوں میں سیاہی ہے محسوس یہ ہوتا ہے یہ دور تباہی ہے شیشے کی عدالت ہے پتھر کی گواہی ہے
منتشر ہم ہیں تو رخساروں پہ شبنم کیوں ہے آئنے ٹوٹتے رہتے ہیں تمہیں غم کیوں ہے وہی لمحے وہی منظر وہی یادوں کے ہجوم میرے کمرے میں اجالا ہے مگر کم کیوں ہے