Gulzar Bukhari

گلزار بخاری

گلزار بخاری کی غزل

    ہم شاد ہوں کیا جب تک آزار سلامت ہے

    ہم شاد ہوں کیا جب تک آزار سلامت ہے سر پھوڑ چکے پھر بھی دیوار سلامت ہے آیا ترے ہونٹوں پر اعلان جنوں کیوں کر جب تیرے گریباں کا ہر تار سلامت ہے انداز دکھائے ہیں کیا شوخئ طفلاں نے اس شہر میں اب کس کی دیوار سلامت ہے لٹتا ہے تو لٹ جائے سکھ چین فقیروں کا کیا فکر تجھے تیرا پندار سلامت ...

    مزید پڑھیے

    آئینے کا منہ بھی حیرت سے کھلا رہ جائے گا

    آئینے کا منہ بھی حیرت سے کھلا رہ جائے گا جو بھی دیکھے گا تجھے وہ دیکھتا رہ جائے گا ہم نے سب کچھ تج دیا تیری رفاقت کے لیے تجھ سے بچھڑے تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا مل سکیں گے کس طرح خوابوں میں ہم جب ہجر سے نیند ہو جائے گی رخصت رتجگا رہ جائے گا ہم اگر تیری رضا حاصل نہیں کر پائیں ...

    مزید پڑھیے

    ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا

    ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا چل بھی رہے ہیں اور سفر ہو نہیں رہا کیا حشر ہے کہ بارش نیساں کے باوجود پیدا کسی صدف میں گہر ہو نہیں رہا صبح وصال کب سے نمودار ہو چکی ناپید شام ہجر کا ڈر ہو نہیں رہا قائل تمام شہر ترے اعتبار کا ہونا تو چاہئے تھا مگر ہو نہیں رہا بیٹھے ہوئے ہیں دیر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی داؤ پہ ہر آن لگی رہتی ہے

    زندگی داؤ پہ ہر آن لگی رہتی ہے دل کی بازی میں سدا جان لگی رہتی ہے ہیں ترے معرکہ آرا کہ تماشائی ہیں بھیڑ کیسی سر میدان لگی رہتی ہے کوئی بلقیس نظر آئے نہ آئے پھر بھی کھوج میں روح سلیمان لگی رہتی ہے خلق عمال سے نالاں ہے مگر یاروں کو فکر خوش نودیٔ سلطان لگی رہتی ہے بخت سازان رعایا ...

    مزید پڑھیے

    تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے

    تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے کسی کو نجم سحر کسی کو ستارۂ شام لکھ دیا ہے زباں پہ حرف ملال کیوں ہو کہ ہم ہیں راضی تری رضا پر ترا کرم تو نے آب و دانہ اگر تہ دام لکھ دیا ہے بچا کے اپنے لیے نہ رکھا کوئی گریباں کا تار ہم نے جنوں سے جو کچھ بھی ہم نے پایا وہ سب ترے نام لکھ ...

    مزید پڑھیے

    آندھی میں بساط الٹ گئی ہے

    آندھی میں بساط الٹ گئی ہے گھنگھور گھٹا بھی چھٹ گئی ہے وہ گرد اڑائی ہے دکھوں نے دیوار حیات اٹ گئی ہے خنجر کی طرح تھی ریگ صحرا خیمے کی طناب کٹ گئی ہے میراث گلاب تھی جو خوشبو جھونکوں میں ہوا کے بٹ گئی ہے پیاسوں کا ہجوم رہ گیا ہے اک تیر سے مشک پھٹ گئی ہے اک اور بھی دن گزر گیا ...

    مزید پڑھیے

    اس کا چہرہ بھی چمک میں نہ مثالی نکلا

    اس کا چہرہ بھی چمک میں نہ مثالی نکلا چاند سورج کے اجالوں کا سوالی نکلا لوگ سمجھا کیے موسم ہی نہیں اڑنے کا اس کی عزلت کا سبب بے پر و بالی نکلا پھول تو مل گیا خوشبو نہ مگر ہاتھ لگی اس کو پانے کا جنوں خام خیالی نکلا بارش سنگ میں بھی آئی دعا ہونٹوں پر سب نے کم تر جسے جانا تھا وہ عالی ...

    مزید پڑھیے

    دیے سے یوں دیا جلتا رہے گا

    دیے سے یوں دیا جلتا رہے گا اجالا پھولتا پھلتا رہے گا نہیں ہے بانجھ آوازوں کی دھرتی صداؤں کا نسب چلتا رہے گا سکوں ہو بحر میں یا ہو تلاطم گہر تو سیپ میں پلتا رہے گا زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی سمندر ابر میں ڈھلتا رہے گا نہ باز آئے گا غفلت سے بھی انساں کف افسوس بھی ملتا رہے ...

    مزید پڑھیے

    کتنی صدیاں نارسی کی انتہا میں کھو گئیں

    کتنی صدیاں نارسی کی انتہا میں کھو گئیں بے جہت نسلوں کی آوازیں خلا میں کھو گئیں رنگ و بو کا شوق آشوب ہوا میں لے گیا تتلیاں گھر سے نکل کر ابتلا میں کھو گئیں کون پس منظر میں اجڑے پیکروں کو دیکھتا شہر کی نظریں لباس خوش نما میں کھو گئیں منتظر چوکھٹ پہ تعبیروں کے شہزادے رہے خواب کی ...

    مزید پڑھیے

    وفا کی تشہیر کرنے والا فریب گر ہے ستم تو یہ ہے

    وفا کی تشہیر کرنے والا فریب گر ہے ستم تو یہ ہے نگاہ یاراں میں پھر بھی وہ شخص معتبر ہے ستم تو یہ ہے ہم ایسے سادہ دلوں کو تجھ سے ملے گی داد خلوص کیسے زمانہ سازی کی خو ترے عہد میں ہنر ہے ستم تو یہ ہے اگر تجھے علم ہی نہ ہوتا تو پھر کبھی ہم گلہ نہ کرتے سکون کیوں چھن گیا ہمارا تجھے خبر ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2