حلقۂ مے سے کسی کو بھی نکلنے نہ دیا
حلقۂ مے سے کسی کو بھی نکلنے نہ دیا اٹھ کے کچھ دور بھی مے خانے سے چلنے نہ دیا دور پر دور چلاتی رہی اک مست نظر آج تو جام بھی ساقی سے بدلنے نہ دیا
حلقۂ مے سے کسی کو بھی نکلنے نہ دیا اٹھ کے کچھ دور بھی مے خانے سے چلنے نہ دیا دور پر دور چلاتی رہی اک مست نظر آج تو جام بھی ساقی سے بدلنے نہ دیا
سمیٹ لو ذرا آنچل کہ روشنی پھیلے بجا دو پاؤں کی چھاگل کہ نغمگی پھیلے نقاب زلفوں کی چہرے پہ خوب ہے لیکن ہٹا دو چاند سے بادل کہ چاندنی پھیلے
اجنبی بن کے ہنسا کرتی ہے زندگی کس سے وفا کرتی ہے کیا جلاؤں میں محبت کے چراغ ایک آندھی سی چلا کرتی ہے
جسم شفاف میں شعلہ سا رواں ہو جیسے کھلکھلاہٹ میں بھی آواز سناں ہو جیسے تیر چلتے ہوئے دیکھوں تو بچاؤں دل کو اف وہ انگڑائی کہ ارجن کی کماں ہو جیسے
کیا ضد ہے کہ برسات بھی ہو اور نہیں بھی ہو تم کون ہو جو ساتھ بھی ہو اور نہیں بھی ہو پھر بھی انہیں لمحات میں جانے سے فائدہ؟ پل بھر کو ملاقات بھی ہو اور نہیں بھی ہو
پوچھا کیسے؟ تو ہنس کے فرمایا بس یوں ہی اک نگاہ کرنا تھی اور یہ بن ٹھن کے کس لئے آئے بولے دنیا تباہ کرنا تھی
لمحہ لمحہ موت کو بھی زندگی سمجھا ہوں میں دوسروں کی ہی مسرت کو خوشی سمجھا ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں میں نے تو دیکھا ہی نہیں آپ نے جو کہہ دیا خود کو وہی سمجھا ہوں میں