Farhat Ehsas

فرحت احساس

ممتاز ما بعد جدید شاعروں میں نمایاں

Prominent post modern poet.

فرحت احساس کی غزل

    خانہ ساز اجالا مار

    خانہ ساز اجالا مار چاند پہ اپنا بھالا مار نور کا دریا پھوٹ پڑے ہجر کا ایسا نالہ مار راستہ پانی مانگتا ہے اپنے پاؤں کا چھالا مار خاص کو رنگ عام دکھا ادنائی سے آلا مار چھوڑ یہ ذلت دشت کو چل شہر کے گھر کو تالا مار روح بھی سر ہو جائے گی پہلے بدن کا پالا مار دیر نہ کر فرحتؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی اک خواب سے شادی مری تنہائی کی

    ہوئی اک خواب سے شادی مری تنہائی کی پہلی بیٹی ہے اداسی مری تنہائی کی ابھی معلوم نہیں کتنے ہیں ذاتی اسباب کتنی وجہیں ہیں سماجی مری تنہائی کی جا کے دیکھا تو کھلا رونق بازار کا راز ایک اک چیز بنی تھی مری تنہائی کی شہر در شہر جو یہ انجمنیں ہیں آباد تربیت گاہیں ہیں ساری مری تنہائی ...

    مزید پڑھیے

    اوروں کا سارا کام مجھے دے دیا گیا

    اوروں کا سارا کام مجھے دے دیا گیا اور میرا کام جانے کسے دے دیا گیا مجھ سے کہا گیا کہ اتارو اب اپنے عکس آئینہ اک چراغ تلے دے دیا گیا تھی یہ مری سزا پہ مزے آ گئے مرے اک گھر ہر ایک گھر کے پرے دے دیا گیا کانٹوں بھری جو راہ تھی یوں ہی رکھی گئی بس نور آبلوں میں مرے دے دیا گیا تعبیر جس ...

    مزید پڑھیے

    بہت زمین بہت آسماں ملیں گے تمہیں

    بہت زمین بہت آسماں ملیں گے تمہیں پہ ہم سے خاک کے پتلے کہاں ملیں گے تمہیں خرید لو ابھی بازار میں نئے ہیں ہم کہ بعد میں تو بہت ہی گراں ملیں گے تمہیں اب ابتدائےسفر ہے تو جو ہے کہہ سن لو ہم اس کے بعد نہ جانے کہاں ملیں گے تمہیں جو راستے میں ملے کوئی مسجد ویراں تو ہم وہیں کہیں وقت ...

    مزید پڑھیے

    پوری طرح سے اب کے تیار ہو کے نکلے

    پوری طرح سے اب کے تیار ہو کے نکلے ہم چارہ گر سے ملنے بیمار ہو کے نکلے جادو بھری جگہ ہے بازار تم نہ جانا اک بار ہم گئے تھے بازار ہو کے نکلے مٹی کے راستوں پہ اترے عمارتوں سے واپس عمارتوں کے آثار ہو کے نکلے اپنی حقیقتوں کو جنگل بنایا ہم نے اور پھر کہانیوں کے کردار ہو کے نکلے آخر ...

    مزید پڑھیے

    زمیں نے لفظ اگایا نہیں بہت دن سے

    زمیں نے لفظ اگایا نہیں بہت دن سے کچھ آسماں سے بھی آیا نہیں بہت دن سے یہ شہر وہ ہے کہ کوئی خوشی تو کیا دیتا کسی نے دل بھی دکھایا نہیں بہت دن سے عجیب لوگ ہیں بس راستوں میں ملتے ہیں کسی نے گھر ہی بلایا نہیں بہت دن سے تجھے بھلانا تو ممکن نہیں مگر یوں ہی ترا خیال ہی آیا نہیں بہت دن ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں اس سے محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے

    تمہیں اس سے محبت ہے تو ہمت کیوں نہیں کرتے کسی دن اس کے در پہ رقص وحشت کیوں نہیں کرتے علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے تمہارے دل پہ اپنا نام لکھا ہم نے دیکھا ہے ہماری چیز پھر ہم کو عنایت کیوں نہیں کرتے مری دل کی تباہی کی شکایت پر کہا ...

    مزید پڑھیے

    راستے ہم سے راز کہنے لگے

    راستے ہم سے راز کہنے لگے پھر تو ہم راستوں میں رہنے لگے میرے لفظوں کو مل گئی آنکھیں سارے آنسو لبوں سے بہنے لگے شہر کے لفظ کر دیے واپس اپنی ذات اپنی بات کہنے لگے ہم ابھی ٹھیک سے بنے بھی نہ تھے خود سے ٹکرائے اور ڈھہنے لگے اس نے تلقین صبر کی تھی سو ہم جو نہ سہنا تھا وہ بھی سہنے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب تجربہ آنکھوں کو ہونے والا تھا

    عجیب تجربہ آنکھوں کو ہونے والا تھا بغیر نیند میں کل رات سونے والا تھا تبھی وہیں مجھے اس کی ہنسی سنائی پڑی میں اس کی یاد میں پلکیں بھگونے والا تھا کسی بدن کی صدا نے بچا لیا مجھ کو میں ورنہ روح کے جنگل میں کھونے والا تھا یہ سوچ سوچ کے اب تو ہنسی سی آتی ہے شروع عشق میں کتنا میں ...

    مزید پڑھیے

    بیمار ہو گیا ہوں شفا خانہ چاہیے

    بیمار ہو گیا ہوں شفا خانہ چاہیے یہ سارا شہر مجھ کو بیابانہ چاہیے سانسوں کی ضرب سے نہ کٹے گا ہمارا حبس ہم کو تو ایک پورا ہوا خانہ چاہیے یوں ہی دکھا رہی ہے محبت کے سبز باغ میرے بدن کو روح سے ہرجانہ چاہیے تاخیر ہو گئی تو بکھر جائے گا بدن آغوش یار اب تجھے کھل جانا چاہیے پھر دعوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5